طلاق کے علاوہ کن چیزوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
سوال
طلاق کے علاوہ کن چیزوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب
طلاق کے علاوہ مندرجہ ذیل چیزوں سے بھی نکاح ٹوٹ جاتا ہے:
۱: موت۔
زوجین میں سے کسی ایک کے انتقال سے زوجیت کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، اسی لیے شوہر کے لیے اپنی فوت شدہ بیوی کے انتقال کے بعد اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے، تاہم اس کے باوجود کچھ احکام کے اعتبار سے زوجیت کا رشتہ ایک گونہ بعد از وصال بھی برقرار رہتا ہے، جیسے زوجین میں سے جو زندہ ہوگا وہ دوسرے کا وارث بنے گا اور بیوی اپنے خاوند کے انتقال کے بعد عدت گزارے گی اور سوگ کرے گی وغیرہ وغیرہ۔
۲: خلع۔
میاں بیوی باہمی طور پر اس بات پر راضی ہو جائیں کہ بیوی شوہر کو کوئی مالی عوض دے گی، جیسے اپنا مہر معاف کر دے گی اور شوہر اس مالی عوض کے بدلے میں بیوی کو اپنی زوجیت سے آزاد کردے گا، چناں چہ شوہر کے خلع دینے سے بیوی پر طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی۔
۳: ایلاء:
یعنی شوہر اپنی بیوی سے چار ماہ ہم بستری نہ کرنے پر قسم کھا ئے، اس کے بعد اگرشوہر چار ماہ کے اندر اندر اپنی بیوی سے ہم بستری کرے گا تو قسم کا کفارہ لازم آئے گا اور اس صورت میں میاں بیوی کا نکاح برقرار رہے گا، لیکن چار ماہ ہم بستری نہ کرنے کی قسم کھانے کے بعد اگر چار ماہ تک حقوق زوجیت ادا نہیں کیے، تو بیوی پر طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔
۴: لعان:
شوہر اگر اپنی بیوی کو زنا کرتا ہوا دیکھ لیتا ہے اور معتبر شرعی گواہوں سے اس کو ثابت نہیں کر پاتا تو اس صورت میں لعان کا حکم ہے اور لعان یہ ہے کہ:
شوہر پانچ دفعہ قسم کھائے گا کہ: ’’میں اپنی بات میں سچا ہوں، اور اگر میں اپنے اس دعوی میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو‘‘۔
اسی طرح چوں کہ بیوی کی بدکاری کی تہمت پر شرعی نصاب گواہی مکمل نہیں، بلکہ صرف شوہر کا دعوی ہے، اس لیے بیوی کو سنگ سار نہیں کیا جا سکتا، یعنی حد زنا جاری نہیں کی جا سکتی، تاہم شوہر کی تہمت کو اپنے سے دور کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو زنا کی حد سے بچانے کے لیے بیوی پر بھی لازم ہوتا ہے کہ وہ پانچ قسمیں کھائے، کہ: ’’میرا شوہر جھوٹا ہے، اور اگر وہ سچا ہے مجھ پر اللہ کا غیظ وغضب نازل ہو۔ ‘‘
اگر دونوں میں سے کوئی ایک بھی قسم اٹھانے سے انکار کر دیتا ہے، تو اس پر حد جاری ہوگی، شوہر اگر قسم کھانے سے انکار کرتا ہے تو اس پر حد قذف جاری ہوگی، یعنی ۸۰ کوڑے لگائیں جائیں گے، اور اگر بیوی قسم کھانے سے انکار کرے گی تو اس پر حد زنا جاری ہوگی، یعنی اس کو سنگ سار کیا جائے گا۔
مندرجہ بالا طریقے سے زوجین میں لعان جاری ہونے کے بعد (یعنی اگر دونوں ہی قسم اٹھا لیں تو) آپس میں ازدواجی تعلق حرام ہو جاتا ہے، اس کے بعد یا تو شوہر طلاق دے دے، یا قاضی دونوں میں تفریق کر دے۔
اللعان عندنا: شهادات مؤكدات بالأيمان من الجانبين مقرونة باللعن والغضب قائمة مقام حد القذف في حقه ومقام حد الزنا في حقها، كذا في الكافي. إذا قذف امرأته مرات فعليه لعان واحد، كذا في المبسوط".
۵: شوہر کا غائب ہونا:
اسی طرح شوہر کے غائب ہونے کی صورت میں بھی امام مالکؒ کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے، اگر مطلوبہ شرائط پائی جائیں تو قاضی چار سال کے انتظار کے بعد بیوی کو غائب شوہر کے نکاح سے آزاد کر سکتا ہے۔
۷: ارتداد (دین اسلام سے پھر جانا):
زوجین میں سے اگر کوئی بھی دین اسلام چھوڑ دے، العیاذ باللہ، تو دونوں کا نکاح ختم ہو کر دونوں میں علیحدگی واقع ہو جاتی ہے۔
8: نکاح کے بعد رضاعت کا یقینی علم ہونا:
اگر معتبر گواہوں کی گواہی سے یہ ثابت ہو جائے کہ میاں بیوی دونوں آپس میں رضاعی بہن بھائی ہیں، تو قاضی دونوں میں تفریق کر دےگا۔
مذکورہ بالا سطور میں طلاق کے علاوہ جن چیزوں سے نکاح ٹوٹتا ہے،ان میں سے بعض لکھ دیے گئے ہیں تاہم یہ بھی واضح رہے کہ ان میں سے کسی سبب کو مکمل طور پر سمجھنا ہو یا اس پر عمل کرنا ہو، اس کے لیے مندرجہ بالا تعریف وتشریح ناکافی ہے، بلکہ ایسے موقع پر متعلقہ مسئلہ لکھ کر دارالافتاء سے رجوع کر لیا جائے۔ فقط واللہ اعلم
ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :144001200689
تاریخ اجراء :24-10-2018
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں