نوجوان نسل کی بے راہ روی اور غیر ازدواجی تعلقات

نوجوان نسل کی بے راہ روی اور غیر ازدواجی تعلقات

 الحمد لله رب والصلوة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين محمد و آله وصحبه أجمعين آمابعد فقد قال الله تعالى في كلامه المجيد، آعوذباللہ من الشیطن الرجیم  بسم الله الرحمن الرحيم

 تحن نقض عليك نبأهم بالحق اتهم فتية آمنوا بربهم وزدناهم هدی. (الكهف:۱۳) 

عن ابن عباس رضی الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لرجل وهو يعظه:اغتنم خمسا قبل خمس شبابك قبل هرمك، وصحتك قبل سقمك، وغناء ك قبل فقرك، وفراغات قبل شغلك، وحياتك قبل موتك. (رواه الحاكم في مستدركہ والبیہقی فی شعب الایمان)

 سامعین محترم و حاضرین کرام ! عام طور پر ہر انسان اپنی زندگی میں مختلف مراحل سے گزرتا ہے، ان گنت حالات سے دو چار ہوتا ہے، بہت سارے مصائب و حادثات کا شکار ہوتا ہے اور عروج و زوال کی کئی وادیوں کو عبور کرتا ہواسفر آخرت پر روانہ ہو جا تا ہے ۔ قرآن مجید میں حق تعالی شانہ نے انسانی زندگی کے مختلف مراحل میں سے تین اہم اور نمایاں مرحلوں کا کچھ اس طرح تذکرہ کیا ہے اللہ الذی خلقكم من ضعف ثم جعل من بعد ضعف قوة ثم جعل من بغد قوة ضعفاً وشيبة يخلق ما يشاء وهو العليم القدير (سورۃ روم : ۵۴ ) اللہ ہی وہ ہے جس نے تم سب کو کمزوری سے پیدا کیا ہے اور پھر کمزوری کے بعد طاقت عطا کی ہے اور پھر طاقت کے بعد کمزوری اور ضعیفی قراردی ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کر دیتا ہے کہ وہ صاحب علم بھی ہے اور صاحب قدرت بھی ہے ۔

غور کیا جائے تو اس آیت میں اللہ تعالی نے سب سے پہلے انسان کے وہ تدریجی احوال بیان فرمائے ہیں ، جن میں وہ مجبور محض ہوتا ہے اور اپنے اختیار سے ان حالات میں خود کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا، پیدا ہوتا ہے تو اس قدر کمزور کہ کسی بھی جان دار کا بچہ اتنا کمز ور پیدا نہیں ہوتا ، ہر جان دار کا بچہ پیدا ہوتے ہی مختصر وقفے میں چلنے پھرنے لگتا ہے؛ مگر انسان کا بچہ چلنا تو در کنار بیٹھ بھی نہیں سکتا اور چلنے کی نوبت تو ڈیڑھ دو سال بعد آتی ہے ۔ پھر اس کے بعد اس پر بلوغت اور جوانی کا دور آتا ہے تو وہ جسمانی طور پر طاقت ور اور مضبوط ہوتا ہے، اس کے قوائے عقلیہ ، اس کا فہم و شعور سب عروج پر ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد اس پر انحطاط کا دور آتا ہے ،قوتیں جواب دینے لگتی ہیں ، اعضا مضمحل ہونے لگتے ہیں ، کئی طرح کے عوارض اور بیماریاں آگھیرتی ہیں حتی کہ اس کی عقل بھی زائل ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سب زندگی کے ایسے مدارج ہیں ، جن سے انسان کو نہ کوئی مفر ہے اور نہ ان میں کوئی تبدیلی لاسکتا ہے، انسان لاکھ چاہے کہ بڑھاپے کے بعد اس پر جوانی کا دور آئے ، مگر ممکنہ کوشش کے باوجود وہ ایسانہیں کرسکتا۔ جس تدریج کے ساتھ اللہ تعالی اسے ان مراحل سے گزارتا ہے، اسے بہر حال گزرنا پڑ تا ہے ۔


انسانی زندگی کے ان تمام مراحل میں سب سے اہم ،قیمتی اور قابل قدر مرحلہ جوانی کا مرحلہ ہے، انسان جوانی کے دور میں بہت سے اچھے کام انجام دے سکتا ہے؛ اس لیے کہ یہ دور انسان کی طاقت اور صلاحیتوں کے عروج کادور ہوتا ہے، جوانی کا وقت کام کاج سعی و کوشش اور امید و نشاط کا وقت ہے، انسان کی زندگی میں بہت سی اہم تبدیلیاں اسی دوران رونما ہوتی ہیں اور اسی دوران ہر فرد کی سرنوشت اور اس کے مختلف پہلومتعین ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کو قوم وملت کا قیمتی سرمایہ اور بیش بہا اثاثہ کہا جا تا ہے ۔ جس قوم کے نوجوان بیدار و باشعور ہوتے ہیں اس قوم کا مستقبل محفوظ ہوتا ہے، اس کے برعکس جس قوم کے نوجوان غیر فعال اور تن آسانی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ قوم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ نو جوانوں کا فعال کردار ہی قومی ترقی کا ضامن ہے اور نوجوان نسل ہی صحیح معنوں میں کسی قوم کی افرادی قوت ہے ۔


اب آئیے! ایک نظر قرآن مجید پر ڈالتے چلیں کہ وہ نوجوانوں کی اہمیت اور ان کے مطلوبہ کردار کے حوالے سے کیا کہتا ہے ۔ قرآن مجید اصحاب کہف کے حوالے سے نوجوانوں کا کردار اس طرح سے بیان کرتا ہے : ”ہم ان کا اصل قصہ تمھیں سناتے ہیں ۔ وہ چند نو جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی‘‘ ۔ (الکہف ) یہ وہ نو جوان تھے جنھوں نے وقت کے ظالم حکمراں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رب العالمین پر ایمان لا کر حق پرستی کا اعلان کیا تھا۔ اللہ تعالی ان کے عزم وحوصلے اور ان کے عالم گیر اعلان کے بارے میں اس طرح فرمایا: ’’ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارا رب بس وہی ہے جو آسمانوں ورزمین کا رب ہے ، ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے ۔ اگر ہم ایسا کر یں تو بالکل بے جابات کریں گے‘‘۔(الکہف ) ان چند نو جوانوں نے اپنے زمانے میں جو کردارادا کیا وہ تمام نوجوانوں کے لیے اسوہ اورنمونہ ہے ۔


اسی طرح سے قرآن مجید نے حضرت موسی پر ایمان لانے والے چند نو جوانوں کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسی کو قوم نے ہر طرح سے جھٹلایا لیکن وہ چند نوجوان ہی تھے جنھوں نے کٹھن حالات میں حضرت موسی کی نبوت پر ایمان کا اعلان کیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ” موسی کو اسی قوم میں سے چند نو جوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر براہ لوگوں کے ڈرسے کہ فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا‘‘۔ ( یونس )

جوانی کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں بہت ساری احادیث بھی مروی ہیں ، جن میں جوانی کے نیک اعمال اور ان پر مرتب ہونے والے اجر وثواب کی خبر دی گئی ہے ۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے جوان کے بارے میں جس نے اپنی جوانی کے ایام کو اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں گزارا ہو، فرمایا کہ قیامت کے دن جب ہرشخص پرنفسی نفسی کا عالم طاری ہو گا، کسی کو قیامت کے روز کی تمازت سے بچنے کے لیے سایہ مہیا نہیں ہوگا ، اس دن جن چند لوگوں کو اللہ تعالی کا خاص سایہ حاصل ہوگا ان میں ایسا جوان بھی شامل ہوگا جس نے اپنی پوری زندگی اللہ کی اطاعت وفرماں برداری اور اس کی عبادت میں گزارای ہو ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : قیامت کے دن سات طرح کے انسان کو اللہ کا سایہ حاصل ہو گا جس دن سوائے اللہ کے سایہ کے کسی اور طرح کا کوئی سایہ نہ ہوگا، ان میں سے امام عادل ، ایسا نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ، ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں معلق رہتا ہو ، دوایسے انسان جو آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور نفرت صرف اللہ کے لیے کرتے ہیں اور ایسا شخص جسے کسی خوب صورت اور باحیثیت عورت نے گناہ کی دعوت دی اور اس نے کہا ہو کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ، اور ایسا شخص جو اتنی راز داری سے صدقہ کرتا ہو کہ بائیں ہاتھ کوبھی خبر نہ ہو سکے کہ دائیں ہاتھ سے کچھ دیا ہے اور ایسا شخص کہ جب بھی اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ ( بخاری شریف ) اسی طرح امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک علی الصحیحین میں اس حدیث کو نقل کیا ہے، نبی کریم ﷺﷺ نے ارشادفرمایا: ’’ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے پہلے غنیمت جانو ۔‘‘ اور ان پانچ چیزوں کے ضمن میں فرمایا: ’’بوڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت جانو!‘‘ کیونکہ جوانی کا مرحلہ ایسا مرحلہ ہے جس کو عمر کا سنہرا موقع باور کیا جانا چاہیے ؛ اس لئے کہ جوانی کے ایام تو وہ ایام ہوا کرتے ہیں جن میں انسان پورے طور پر صحت وعافیت اور ہر طرح کی حرکت ونشاط سے مالامال ہوتا ہے، لہذا اسے دین اسلام کی بھر پور خدمت اور اس کی طرف پوری توجہ مرکوز کر نے اور اچھے کاموں کی انجام دہی نیز حصول علم اور زندگی کے مختلف میدانوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر صرف کرنا چاہیے ۔

اسی طرح شریعت اسلامیہ میں مسلم نوجوان کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے، ابتدائے اسلام میں تعلیمات اسلامی نے نوجوانوں پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں ، کائنات کی تاریخ میں صحابہ کرام کی نوجوان جماعت نے اپنے کردار و اخلاق سے قیامت تک آنے والی نسلوں کو متاثر کیا ہے، جس کی نظیر پیش کر نے سے تاریخ عاجز و قاصر ہے ۔ جناب مجتبی فاروق عصر حاضر میں نوجوانوں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : جوانی کی یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت اسامہ بن زید نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی ۔ یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت خالد بن ولید نے بار گاہ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا۔ دور شباب ہی میں حضرت علی ، حضرت مصعب بن عمیر ، حضرت عمار بن یاسر ، اور عبادلۂ اربعہ ( جن میں ابن عمر ، ابن عباس ، ابن زبیر اور ابن عمرو بن العاص ہیں ) نے اللہ کے رسول سے شانہ بشانہ عہد و پیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، اور امام غزالی جیسے مجدد علوم کی گہرائیوں میں اترے ، اسی دور شباب میں صلاح الدین ایوبی ، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سرزمین کو دعوت الی اللہ کے لیے مسکن بنایا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا۔ وغیرہ

ایک طرف ہماراشان دار ماضی نو جوانوں کے عمدہ کارناموں، بے مثال قربانیوں اور مختلف دینی وملی خدمات سے روشن و تاباں ہے اور دوسری طرف دور حاضر کے نوجوانوں کی تن آسانی عیش کوشی ، کابلی و سستی اور ذمہ داریوں سے فرار و دوری دردمندان قوم وملت کو خون کے آنسور لارہی ہے ۔ اگر عصر حاضر کے نوجوانوں ، ان کی مصروفیات ،خواہشات ، اور تمناؤں کا موازنہ عہد رسالت کے نوجوانوں ، ان کی مشغولیات اور جذبات سے کیا جائے تو حد درجہ تکلیف دہ صورت حال سامنے آتی ہے ۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے ۔ کہاں عصر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نوجوانوں کا جذ بہ تعلیم وتعلم ، جذ بہ عبادت ، جذبہ جہاد اور کہاں عصر حاضر کے نوجوانوں میں منشیات کی لت ، بیکاری و کام چوری کی عادت اور تباہ کن کھیلوں کا شوق؟؟ ۔عصر حاضر کا نوجوان، دین سے کس قدر دور ہوتا جارہا ہے ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ ان سے پنج گانہ نمازوں کے معمولی احکام دریافت کریں ، دین کے متعلق بنیادی باتیں پوچھیں تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ، ایک وہ دور تھا کہ عہد رسالت کے بچے بچے کی زبان پر قرآن کا ورد ہوتا تھا، وہ غیر معمولی حد تک دینی امور سے واقف ہوتے تھے ،ایثار وقربانی ان کی گٹھی میں پڑی ہوتی تھی ، مگر افسوس! آج کا نوجوان اخلاقی اعتبار سے بالکل تباہ و برباد ہو چکا ہے ،گلی کوچوں میں گناہوں کے اسباب مہیا ہیں ، اتنا ہی نہیں معاشرہ میں اس قدر بے حیائی پھیل چکی ہے کہ وہ تمام برائیاں جومحلوں اور گاؤں سے دور ماڈرن شہروں میں ہوا کرتی تھیں اب وہ کھلے عام گاؤں اور محلوں میں ہونے لگی ہیں جس کے اثرات سے مسلم گھرانے بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ بالخصوص رات میں بلا وجہ دیر تک جاگتے رہنے کارجحان ،سگریٹ اور دوسری نشہ آور چیزوں کا استعمال ، وضع قطع میں سنت کی مخالفت ، بڑوں کی بے احترامی ، کمزوروں کے ساتھ غلط سلوک وغیرہ ایسے امور ہیں جو تیزی سے نو جوانوں میں بڑھتے جارہے ہیں ۔ آج مغربی ممالک سے آئی ہوئی ہر چیز ہمارے مسلم نوجوان کو لائق تقلید معلوم ہوتی ہے، اس پرفیشن پرستی کا ایسا بھوت سوار ہے کہ اسے سنت رسول میں کوئی خاص دل چسپی نہیں ، وہ یہود ونصاری کی اندرونی سازشوں سے بے خبر ہے، اسے معلوم نہیں کہ یہود ونصاری کا سب سے بڑا ہدف ، مسلم قوم کے عقائد خراب کرنا، ان کے اخلاق اور نظام زندگی اور دینی ذوق کو برباد کرنا ہے، یہ بے پروا ہی مسلم نوجوان کو کہاں لے جائے گی ، کہنا مشکل نہیں ۔ ان دنوں نوجوان نسل جن سنگین مسائل سے دو چار ہے ان میں سے ایک خاندان کی تباہی و بربادی ہے ۔ بے محابا آزادی ،خودغرضی ، مفاد پرستی ، شہوت رانی ، مادیت کے غلبے اور مال و دولت کی حرص نے اس مقدس ادارہ کو بری طرح شکست سے دو چار کر دیا ہے ، خاندان کی ذمہ داریوں سے فرار کی راہیں تلاش کی جارہی ہیں ، یہاں تک کہ اب اس کی ضرورت سے بھی انکار کیا جانے لگا ہے ۔ اس رجحان کو اصطلاحی طور پر Live in Relationshipیا Cohabitation کہا گیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کسی مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہتے ہوئے زندگی گزارنا۔ اس کا اطلاق ان جوڑوں پر کیا جا تا ہے، جو نکاح کے بغیر ایک ساتھ رہنے لگیں۔ ان کی یہ معاشرت عارضی اور چند روزہ بھی ہوسکتی ہے اور اس میں پائیداری بھی ممکن ہے کہ وہ طویل زمانے تک ایک ساتھ رہیں ۔ اس عرصے میں ان کے درمیان جنسی تعلق بھی قائم رہتا ہے ، جس کے نتیجے میں بسا اوقات بچے بھی ہو جاتے ہیں ،لیکن میاں بیوی کی طرح رہنے کے باوجود ان کے درمیان نکاح کا معاہدہ نہیں ہوتا،جس کی بنا پر ان میں سے ہر ایک کواختیار رہتا ہے کہ جب بھی اس کی مرضی ہوعلیحدگی اختیار کر لے ۔ نکاح نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ساتھی کے تعلق سے ہر طرح کی ذمہ داریوں سے آزادرہتا ہے اور اس پر کوئی قانونی بندش نہیں ہوتی۔


نصف صدی قبل تک دنیا کے بیش تر حصوں میں نکاح کے بغیر جنسی تعلق کو سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا اور زیادہ ترممالک کے دستوروں اور قوانین میں اسے غیر قانونی قرار دیا گیا تھا ،لیکن اس کے بعد صورت حال بہت تیزی سے تبدیل ہونے لگی اور خاندان کی پابندیوں سے آزادرہ کر زندگی گزارنے کارجحان پرورش پانے لگا، جس میں برابر اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ یہاں تک کہ اب اس نے انتہائی خطرناک اور بھیا نک صورت اختیار کر لی ہے ۔ اس کا اندازہ اس سلسلے میں مختلف ممالک کے بارے میں جاری ہونے والے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے ۔ امریکا میں 1960ء سے قبل تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار جوڑے بغیر نکاح کے ایک ساتھ رہتے تھے ۔2000ء تک ایسے لوگوں کی تعداد میں دس گنا اضافہ ہو گیا، یہاں تک کہ 2011ء میں ان کی تعداد تقریبا ساڑھے سات ملین تک پہنچ گئی ۔2009ء میں American Community Survey U.S. Census Bureau کروایا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تیس (30) سے چوالیس ( 44 ) سال کی درمیانی عمر کے مرد اور خواتین ، جو نکاح کے بغیر ایک ساتھ رہتے ہیں ، ان کا تناسب 1999ء میں چار (4) فی صد تھا، جو اب سات ( 7 ) فی صد ہو گیا۔ خواتین کا الگ سے کیے جانے والے سروے کا نتیجہ یہ تھا کہ کہ انیس (19) سے چوالیس ( 44 ) سال کی درمیانی عمر کی ایسی خواتین ، جو نکاح کے بغیر کسی مرد کے ساتھ رہتی ہوں ، ان کا تناسب 1987ء میں تینتیس ( 33 ) فی صد تھا، جواب بڑھ کر اٹھاون (58) فی صد ہو گیا۔ برطانیہ کے Office for National Statistics کے مطابق وہاں 2012ء میں بغیر نکاح کے ایک ساتھ رہنے والے جوڑوں کی تعداد 9.5ملین تھی ، جو 1996ء میں ان کی تعداد کی دوگنی تھی ۔ یہی حال یورپی ممالک کا ہے ۔ 2011ء میں یورپی یونین کے ستائیس (27) ممالک میں پیدا ہونے والے بچوں میں 39.5 فی صدا یسے تھے، جن کی ولادت بغیر نکاح کے جنسی تعلق کے نتیجے میں ہوئی تھی ۔ یہ و با مغربی ممالک کے ساتھ اب مشرقی ممالک میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ National Institute of Population and Social Security Research Japan کے مطابق پچیس (25) سے انتیس (29) سال کی درمیانی عمر کی خواتین کی تقریبا تین (3) فی صد تعداد اس وقت جاپان میں بغیر نکاح کے مردوں کے ساتھ رہ رہی ہے اور بیس (20) فی صد خواتین ایسی ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی بغیر نکاح کے جنسی تعلق کا تجربہ کیا ہے ۔ فلپائن میں 2004ء میں بیس (20) سے چوبیس (24 ) سال کی درمیانی عمر کے تقریبا ڈھائی ملین افراد ( مرد وخواتین ) بغیر نکاح کے ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ Live in Relationship اختیار کرنے والے جوڑوں کا تناسب آسٹریلیا میں 2005ء میں وہاں کی آبادی کا بائیس (22) فی صد اور نیوزی لینڈ میں 2001ء میں وہاں کی مجموعی آبادی کا اٹھارہ ( 18 ) فی صد تھا۔ یہ چند ممالک کے اعدادوشمارہیں۔ دیگر ممالک کا حال اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ اس مادر پدر آزاداصطلاح کے برخلاف اسلام نے نکاح کا پاکیزہ نظام پیش کیا ہے، جو ایک مضبوط بندھن ہے ، جومرد،عورت ، بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کو ایک دوسرے سے مربوط رکھتا ہے ۔ ان کے درمیان محبت ، ایثار، ہم دردی ،خیر خواہی اور تعاون کے جذبات پروان چڑھاتا ہے ۔ انھیں ایک دوسرے کی مدد کر نے ، ان کی ضروریات پوری کرنے اور ان کے کام آنے پر ابھارتا ہے ۔ یہ بندھن نہ ہوتو افرادخودغرضی ، ذاتی مفاد اور مطلب براری کے لیے ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہیں اور اپنی ضرورت پوری ہوتے ہی ایک دوسرے سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔ ہر ایک کو صرف اپنا مفادعزیز ہوتا ہے اور دوسرے کا استحصال کرتے ہوئے اسے ذرا بھی شرم نہیں آتی۔ اس صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر وہ بچے ہوتے ہیں جو بے قید جنسی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کی صحیح ڈھنگ سے پرورش نہیں ہو پاتی ، وہ اچھی تربیت ، عمدہ اخلاق اور صحیح خطوط پر شخصیت کی تعمیر سے محروم رہتے ہیں ، گھر کا سکون اور خاندان کی پرامن فضا انھیں میسر نہیں آتی ، اس بنا پر وہ سماج میں انتشار،فواحش و منکرات اور بے حیائی پھیلنے کا باعث بنتے ہیں۔

  الغرض بے قید معاشرت کے نتیجے میں تمدن کا شیرازہ بکھر نے لگتا ہے، افراد کی زندگیاں تلخ ہو جاتی ہیں اور پورا معاشرہ دائمی اضطراب میں مبتلا ہو جا تا ہے ۔ آج پوری دنیا میں اور خاص طور پر مغربی معاشروں میں ہم اس کا نمونا اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، اسی لیے کسی دردمند دل رکھنے والے عالم دین نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ اے نوجوانوں ! سن لوتمہاری تباہی کے لیے یہود نصاری کانفرنسیں کر رہے ہیں ، کئی کئی ممالک میں تمہاری تباہی کے لیے دماغ لڑائے جار ہے ہیں ، تمہارے لیے سازشیں ہورہی ہیں ، سن لو! نو جوان ہی قوموں کے عروج وزوال کا سبب بنتا ہے،

 آئیے اب ذرا آج کے نوجوان کو دیکھتے ہیں ،کل جن نوجوان کے ہاتھ میں تلوار تھی ، آج اس کے ہاتھ میں کرکٹ کا بلا اور وی سی آر کیسٹ ( یا اس کا متبادل ) ہے ، آج وہ اپنا وقت شراب نوشی اور انٹرنیٹ کی فحاشی ویب سائٹس اور مغرب کی اندھی تقلید کرنے والی بر ہنہ لباس کی دلدادہ لڑکی کی آغوش میں گزاررہا ہے ،کل کے نوجوان کے باتھ قرآن پاک کے نسخے سے مزین تھے، آج اس کے ہاتھ میں اشتراکیت، کمیونزم اور دوسرے مذاہب کی کتابیں اور خش اور عریاں رسالے ہیں اور وہ قرآن کو فرسودہ اور پرانے لوگوں کا نظام سمجھتا ہے ، کل جس زبان سے نعرہ تکبیر اور کلمہ توحید کے نعرے بلند ہورہے تھے ، آج اس زبان سے بے غیرتی اور بے حیائی کے نعرے سنائے جارہے ہیں ، افسوس کہ آج ہمارا نوجوان کہاں جارہا ہے، اس کی منزل مقصود کیا ہے؟!!! اس وقت ضرورت ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ اپنے دین و دنیا کوسنوارنے کی طرف توجہ دے،فواحش ومنکرات سے تو بہ کرے، غفلت بھری زندگی سے نکل کر اپنے اندر احساس وشعور بیدار کرے اور ایک نئے جذبہ کے ساتھ میدان عمل میں اترے ۔ اللہ پاک ہم تمام کو تو فیق عمل نصیب فرماۓ ۔ آمین


Subscribe YouTube Channel

https://youtube.com/@Islamic_Knowledge

تبصرے

Reed more posts

جھوٹ معاشرہ کو تباہ و بربادکرتا ہے

جہیز کی لعنت کا خاتمہ ضروری ہے

: اول جیش من امتی

اولاد پر والدین کے حقوق اور ہمارے نوجوان

زنا: ایک سماجی ناسور

حلال روزی کما نافرض ہے

اسلام میں لَو یعنی پیار و محبت کرنا کیسا ہے..

طلاق کے علاوہ کن چیزوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

📘 دستورِ ہند؛ ایک معروضی مطالعہ 🇳🇪