حلال روزی کما نافرض ہے

حلال روزی کما نافرض ہے


الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الكريم اما بعد قال الله تعالى في القرآن المجيد. اعوذ بالله من الشيطان الرجيم . ولا تتـمـنـوا مـا فـضـل الـلـه بـه بعضكم على بعض لـلـرجـال نـصيب مما اكتسبوا وللنساء نصيب مما اكتسبن وسئلوا الله من فضله إن الله كان بكل شيء عليماً .(النسا-۳۲) 

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا ما نگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔


اللہ جو خالق اور مالک اور رازق ہے ، اس نے ہر جاندار کی رزق رسانی کا انتظام کیا ہے ، انسان کو بھی روزی وہی دیتا ہے، رزق میں کمی اور اضافہ اس کے حکم سے ہوتا ہے مگر اس نے انسان کو رزق حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت اور دوڑ دھوپ کا بھی حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو زمین پر آباد کیا ہے اور اس کی ضرورت کی ہر چیز زمین سے وابستہ کر دی ہے ، انسان یہاں جتنی محنت کرے گا اتنا ہی اسے مال اور سامان رزق مہیا ہوگا ۔غلہ، اناج، پھل ، پھول ، معدنیات ،سونا چاندی، سب کچھ زمین سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے زراعت ، تجارت ، ملازمت ،اجرت صنعت ، حرفت وغیرہ کا سہارا لینا ضروری ہے ۔اس لیے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے :


هو الذي جعل لكم الأرض ذلولا فامشوا في مناكبها وكلوا من رزقه وإليه النشور. (الملک ۔۱۵) وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے ، چلو اس کے سینہ پر اور کھاؤ خدا کارزق اس کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے۔ جس طرح اللہ تعالی نے انسانوں پر اپنی معرفت اور عبادت فرض کی ہے اسی طرح اس نے اس پر حلال روزی کمانا بھی فرض قرار دیا ہے، چنانچہ نماز جمعہ کی فرضیت کوادا کرنے کے بعد کسب معاش میں لگ جانے کا حکم اس طرح دیا ہے : فإذا قـضيـت الـصّلوة فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل الله واذكروا الله كثيرا لعلكم تفلحون. (الجمعه -۱۰) پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو، شاید کہ تمہیں فلاح نصیب ہو جائے۔ رزق حاصل کرنے کے لیے ہر انسان کو محنت کرنی پڑتی ہے اور کرنی چاہیے، اللہ نے اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسولوں کو بھی حلال روزی کمانے کا حکم دیا تھا اللہ تعالی کا ارشادہے :

يايها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحاً إلى بما تعملون عليم . (المومنون-۵۱) اے پیغمبرو ، کھاؤ پاک چیز یں اور عمل کرو صالح ،تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں ۔ چنانچہ تمام انبیاء کرام دین کی دعوت کا کام انجام دیتے اور لوگوں سے اس کام پر کوئی اجرت اور چندہ وصول نہیں کرتے بلکہ خود اپنی محنت و مشقت سے رزق حاصل کرتے ۔حدیث کی کتابوں میں انبیاء کے مختلف پیشوں اور محنتوں کا ذکر ملتا ہے ۔ حضرت مقدام بن معد یکرب روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:

ما اكل احد طعاما ما قط خيرا من ان ياكل من عمل يديه وان نبي الله داؤد كان ياكل من عمل يديه

کوئی شخص اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی روزی نہیں کھا تا اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے اپنی روزی کما کر کھاتے تھے۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ بھی تجارت کرتے تھے اور اپنی روزی آپ کماتے تھے، نبوت سے پہلے آپ  تجارتی سفر پر جایا کرتے تھے ۔ یہ سب کو معلوم ہے ، نبوت کے بعد بھی آپ تجارت کے لیے خودتو سفر نہیں کرتے تھے مگر تجارت میں حصہ لیتے تھے، اگر آپ چاہتے تو مسلمانوں کی زکوۃ وصدقات قبول کر سکتے تھے اور لوگ اپنی زکوۃ صدقات آپ کے پاس لا کر ڈھیر لگا دیتے ،مگر آپ نے نہ صرف اپنے اوپر بلکہ اپنے خاندان کے ہر فرد پر زکوۃ وصدقات کا مال لینے پر پابندی عائد کر لی تھی ۔ جس طرح اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کو حلال روزی کمانے کا حکم دیا تھا اسی طرح عام بندوں کو بھی حلال روزی کمانے کا حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وكلوا مما رزقكم الله حلالا طيباً واتقوا الله الذي انتم به مؤمنون. (المائده-۸۸) جو کچھ حلال وطیب رزق سے اللہ نے تم کو دیا ہے اسے کھاؤ پیواور اس خدا کی نافرمانی سے بچتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔ حضرت عبداللہ بن زبیر بن العوام روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول کریم   نے فرمایا :

لان يـاخـذ احـد كـم حـبـلـه فـيـاتى بحزمة حطب على ظهـره فيبيـعـهـا فيـكـف الـلـه بـهـا وجهة خير له من ان يسأل الناس اعطوه اومنعوه .. تم میں سے کوئی شخص کلہاڑی سے لکڑی کاٹ کر گٹھر اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لائے اور اسے فروخت کرے،اس کے ذریعہ اللہ اس کے چہرہ کی حفاظت کرے میں اس کے لیے بہتر ہے اس سے کہ وہ لوگوں سے مانگے اور لوگ اسے دیں یا منع کردیں۔ 

حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی محتاجی کی شکایت کرنے لگے آپ نے پوچھا کہ تمہارے گھر میں کیا ہے ، انھوں نے کہا کہ ایک کمبل ہے جسے ہم اوڑھتے ہیں اور بچاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا جاؤ دونوں چیز میں لے کر آؤ، وہ صحابی جب مبل اور پیالہ لے کر آۓ تو آپ نے حاضر میں مجلس سے فرمایا کون اسے خریدے گا ؟ ایک صحابی نے ایک درہم میں خرید نے کی پیش کش کی تو آپ نے فرمایا دو یا تین درہم میں کون خریدے گا ؟ ایک دوسرے صحابی نے دو درہم میں اسے خریدلیا ، رسول پاک نے وہ دو در ہم اس انصاری کے حوالہ کر دیا اور فرمایا کہ ایک درہم میں کھانے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دو اور دوسرے درہم کی ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ صحابی نے حکم کی تعمیل کی ، ایک درہم میں الله کھانے کا سامان خریدا اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر حضور ﷺ کے پاس لائے آپ نے اپنے دست مبارک سے اس میں ہتھہ لگا دیا اور فرمایا جاؤ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور اسے فروخت کرو پھر پندرہ دنوں کے بعد میرے پاس آؤ۔ وہ صحابی گئے اور لکڑیاں کاٹ کر بیچنے لگے جب پندرہ دنوں بعد واپس آۓ تو وہ دس درہم کما چکے تھے ، آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا اس طرح کما کر کھانا تمھارے لیے بہتر ہے اس سے کہ تم لوگوں سے مانگتے پھرو اور قیامت کے دن تمہارا چہرہ داغدار ہو مکہ سے ہجرت کر کے جولوگ مدینہ آئے ان میں حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی تھے ۔ رسول اللہﷺ نے ہر مہاجر کو کسی انصاری کا بھائی بنا کر ان کے حوالہ کر دیا تھا تا کہ وہ ان کے قیام و طعام میں مددگر میں ، حضرت عبد الرحمن بن عوف کو حضرت سعد بن ربیع کا بھائی بنایا اور انھوں نے کمال اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا باغ آ دھا بانٹ کر حضرت عبد الرحمن کو پیش کر دیا مگر حضرت عبد الرحمن بن عوف نے ان کا مال شکریہ کے ساتھ ان کو واپس کر دیا اور کہا کہ آپ مجھے بازار دکھادیجیے، چنانچہ وہ بازار گئے اور وہاں گھی اور چھڑے کی خرید و فروخت کرنے لگے ، مفت مال قبول کرنے پر تجارت کرنے کو اور اپنے ہاتھ سے کما کر کھانے کو ترجیح دی ، رفتہ رفتہ ان کا کاروبار بڑھ گیا۔ اللہ تعالی نے ان کے کاروبار میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ مدینہ کے بڑے تاجروں میں ان کا شمار ہونے لگا ، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جہاد کے موقع پر ہزاروں دینار اور قحط وغیرہ کے موقع پر سینکڑوں لدے ہوئے اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے لگے، یہ برکت اس تجارت کی تھی جسے انھوں نے اختیار کیا تھا۔ اسلام نے ہاتھ سے کمانے کی ہمت افزائی کی ہے اور ہاتھ پھیلانے کی ممانعت کی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مـا يـزال الـرجـل يسأل الناس حتى يأتى يوم القيمة وليس في وجهه مزغة لحم

تم میں سے جو کوئی مانگنے کی عادت ڈالتا ہے وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا نہیں ہوگا۔ نبی پاک ﷺ نے قبیصہ بن المخارق سے فرمایا کہ ہاتھ پھیلا نا تین آدمیوں الله کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے ایک وہ آدمی جو کسی ضمانت یا قرض میں مبتلا ہواس کے لیے مانگنا اس وقت تک جائز ہے جب تک کہ اس کا قرض ادانہ ہو جائے۔ دوسرا وہ آدمی جو کسی آفت میں مبتلا ہو اور اس کا مال بر باد ہو گیا ہو اس کے لیے اس وقت مانگنا جائز ہے جب تک کہ اس کی حالت بحال نہ ہو جائے ۔ تیسرا وہ آدمی جس کے گھر میں فاقہ ہو اور تین لوگ یہ کہد یں کہ اس کے  یہاں فاقہ ہورہا ہے۔اس کے علاوہ کسی اور کے لیے مانگنا حرام ہے ۔ جس طرح اسلام نے ہاتھ پھیلانے کی ممانعت کی ہے اسی طرح غلط طریقہ سے مال کمانے کو حرام قرار دیا ہے، اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے : ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل ۔(البقرہ-۱۸۸) اور تم ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۔ باطل طریقے سے مال کھانے کا مطلب ناجائز اور حرام آمدنی ہے ، مثلاً چوری اور ڈاکہ زنی کے ذریعہ مال کمانا ،سود اور جوا کے ذریعہ مال کمانا، دھوکہ دہی اور ملاوٹ کے ذریعہ مال کمانا، ناپ تول میں کمی کرنا نہین اور رشوت کے ذریعہ مال کمانا ، خیانت اور بدعہدی کے ذریعہ مال کمانا ، بد کاری اور شراب فروشی کے ذریعہ اور حرام مال کی تجارت کے ذریعہ مال کمانا وغیرہ ایسی تمام آمدنی کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیاہے، ایسی کمائی میں نہ تو خیر و برکت ہے اور نہ ہی ایسے شخص کی عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ ایسا شخص جنت میں جانے کا حق دار ہے ،مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیکار نہ بیٹھے ، رزق حاصل کرنے کا حلال ذریعہ تلاش کرے ، کام خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، پیشہ چاہے کم تر ہو یا برتر ، بشرطیکہ وہ حلال ہو اس میں شرم کی کوئی بات نہیں ہے، یہ خودا یک عبادت ہے ۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ انسان حرام طریقہ سے مال کمائے اور اس سے اپنی اور اپنی اولاد کی پرورش کرے ۔اللہ تعالی ہر مسلمان کو حلال رزق حاصل کرنے کی توفیق عطافرمائے اور ہماری عبادت کو قبول فرمائے ۔(آمین)



Subscribe YouTube Channel

https://youtube.com/c/IslamicKnowledgeTV


تبصرے

Reed more posts

نوجوان نسل کی بے راہ روی اور غیر ازدواجی تعلقات

جھوٹ معاشرہ کو تباہ و بربادکرتا ہے

جہیز کی لعنت کا خاتمہ ضروری ہے

: اول جیش من امتی

اولاد پر والدین کے حقوق اور ہمارے نوجوان

زنا: ایک سماجی ناسور

اسلام میں لَو یعنی پیار و محبت کرنا کیسا ہے..

طلاق کے علاوہ کن چیزوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

📘 دستورِ ہند؛ ایک معروضی مطالعہ 🇳🇪