جھوٹ معاشرہ کو تباہ و بربادکرتا ہے

 جھوٹ معاشرہ کو تباہ و بربادکرتا ہے


الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحيم ’’ما يلفظ من قول إلا لديه رقيب عتيد. (سورۂ ق:۱۸ ) صدق اللہ مولانا العظیم .

سب جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتوں کو لوگوں میں پھیلانے ، جھوٹ بولنے اور افواہ کا بازار گرم کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ ہاں! اتنی بات تو ضرور ہے کہ یہی جھوٹ ، چاہے جان کر ہو، یا انجانے میں ہو، کتنے لوگوں کو ایک آدمی سے بدظن کر دیتا ہے ،لڑائی ، جھگڑا اورخون وخرابہ کا ذریعہ ہوتا ہے کبھی تو بڑے بڑے فساد کا سبب بنتا ہے اور بسا اوقات پورے معاشرے کو تباہ و بربادکر کے رکھ دیتا ہے ۔ جب جھوٹ بولنے والے کی حقیقت لوگوں کے سامنے آتی ہے، تو وہ بھی لوگوں کی نظر سے گر جاتا ہے، اپنا اعتمادکھو بیٹھتا ہے اور پھر لوگوں کے درمیان اس کی کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

جھوٹ کیا ہے؟


لفظ جھوٹ کو عربی زبان میں’’ کذب‘‘ کہتے ہیں ۔ خلاف واقعہ کسی بات کی خبر دینا، چاہے وہ خبر دینا جان بوجھ کر ہو، یاغلطی سے ہو، جھوٹ کہلا تا ہے ۔ (المصباح المنیر اگر خبر دینے والے کو اس بات کا علم ہو کہ یہ جھوٹ ہے، تو وہ گنہگار ہوگا، پھر وہ جھوٹ اگر کسی کے لیے ضرر کا سبب بنے ،تو یہ گناہ کبیرہ میں شمارکیا جائے گا ورنہ تو گناہ صغیرہ ہوگا۔ قرآن کریم میں جھوٹوں کا انجام

اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ انسان کوئی بات بغیر تحقیق کے اپنی زبان سے نہ نکالے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو پھر اس کی جواب دہی کے لیے تیار ہے۔ 

ارشاد خداوندی ہے: "ولا تقف ما ليس لك به علم إن السمع والبصروالفؤاد كل أولئك كان عنه مسئولًا ‘‘ (سورۃ الاسراء:۳۲) ترجمہ:’’اور جس بات کی تحقیق نہ ہواس پر عمل در آمدمت کیا کر ، کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی ۔‘‘

آیت مذکورہ کی تفسیر میں علامہ شبیراحمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”یعنی بے تحقیق بات زبان سے مت نکال ، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر ، آدمی کو چاہیے کہ کان ، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کر اور بقدر کفایت تحقیق کر کے کوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لاۓ سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے یوں ہی اٹکل پچو کوئی قطعی حکم نہ لگاۓ یا عمل درآمد شروع نہ کر دے۔اس میں جھوٹی شہادت دینا، غلط تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیز میں سن کر کسی کے در پے آزار ہونا ، یا بغض و عداوت قائم کر لینا ، باپ دادا کی تقلید یارسم و رواج کی پابندی میں خلاف شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا ، ان دیکھی ، یا ان سنی چیزوں کو دیکھی یاسنی ہوئی بتلانا،غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعوی کرنا کہ میں جانتا ہوں ، یہ سب صورتیں اس آیت کے تحت میں داخل ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن تمام قومی کی نسبت سوال ہوگا کہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیا تھا؟ بے موقع تو خرچ نہیں کیا؟‘‘ ( تفسیر عثمانی ) انسان جب بھی کچھ بولتا ہے تو اللہ کے فرشتے اسے نوٹ کرتے رہتے ہیں ، پھر اسے اس ریکارڈ کے مطابق اللہ  کےسامنےقیامت کے دن جز اوسزادیجا گی ۔

: اللہ تعالی کا فرمان ہے : ما يلفظ من قول إلا لديه رقيب عتيد‘‘. (سورۂ ق: ۱۸) ترجمہ: ’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکا لنے پا تا مگر اس کے پاس ہی ایک تاک لگانے والا تیار ہے ۔‘‘

یعنی انسان کوئی کلمہ جسے اپنی زبان سے نکالتا ہے، اسے مینگراں فرشتے محفوظ کر لیتے ہیں ۔ میفرشتے اس کا ایک ایک لفظ لکھتے ہیں ، خواہ اس میں کوئی گناہ یا ثواب اور خیر یا شر ہو یا نہ ہو۔

امام احمد نے بلال بن حارث مزنی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’انسان بعض اوقات کوئی کلمہ خیر بولتا ہے، جس سے اللہ تعالی راضی ہوتا ہے، مگر یہ اس کو معمولی بات سمجھ کر بولتا ہے، اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا ثواب کہاں تک پہونچا کہ اللہ تعالی اس کے لیے اپنی رضاۓ دائمی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں ۔اسی طرح انسان کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا ( معمولی سمجھ کر ) زبان سے نکال دیتا ہے ، اس کو گمان نہیں ہوتا کہ اس کا گناہ دو بال کہاں تک پہونچے گا؟ اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس شخص سے اپنی دائی ناراضی قیامت تک کے لیے لکھ دیتے ہیں ۔ ( ابن کثیر تلخیص ، از :معارف القرآن ، ج:۸،ص: ۱۴۳) جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے اور میں ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ قرآن کریم میں جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے ۔

 ارشا در بانی ہے: فنجعل لعنة الله علی الکاذبین‘‘ ( سورۂ آل عمران : ۲۱ ) ترجمہ: ”لعنت کر میں اللہ کی ان پر جو کہ جھوٹے ہیں ۔‘‘

حدیث شریف میں جھوٹ کی مذمت حبیسا کہ مندرجہ بالاقر آنی آیات میں جھوٹ اور بلاتحقیق کسی بات کے پھیلانے کی قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس بدترین گناہ کی قباحت و شناعت کھلے عام بیان کی گئی ہے ۔ ہم ذیل میں چند احادیث مختصر وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہیں: ایک حدیث میں یہ ہے کہ جھوٹ اور ایمان جمع نہیں ہو سکتے ،لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو ایمان کے منافی عمل قرار دیا ہے ۔

حدیث ملاحظہ فرمایئے:عن صفوان بن سليم - رضي الله عنه أنه قيل لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم -: آیکون المؤمن جباناً، فقال: نعم. فقيل له: آیكون المؤمن بخيلاً فقال: نعم . فقيل له: أيكون المؤمن كذاباً فقال: لا‘‘. (مؤطاامام مالک،حدیث:۳۶۳۰/ ۸۲۴) ترجمہ: حضرت صفوان بن سلیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’ہاں ‘‘ پھر سوال کیا گیا: کیا مسلمان بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’ہاں ۔‘‘ پھر عرض کیا گیا: کیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ’’نہیں ( اہل ایمان جھوٹ نہیں بول سکتا ) ۔‘‘ ایک حدیث شریف میں جن چارخصلتوں کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق کی علامات قرار دیا ہے، ان میں ایک جھوٹ بولنا بھی ہے، لہذا جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ خصلت نفاق سے متصف ہے۔

حدیث شریف ملاحظہ فرمایئے: "أربع من كن فيه كان منافقا خالصا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من التفاق على يدعها: إذا اؤتمن خان، وإذا حدث كذب، وإذا عاهد غدر، وإذا خاصم فجر ‘‘ ( صحیح بخاری ، حدیث : ۳۴) ترجمہ: ’جس میں چار خصلتیں ہوں گی ، وہ خالص منافق ہے اور جس شخص میں ان خصلتوں میں کوئی ایک خصلت پائی جاۓ ،تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے، تا آں کہ وہ اسے چھوڑ دے: جب اس کے پاس امانت رکھی جاۓ تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو دھوکہ دے اور جب لڑائی جھگڑا کرے تو گالم گلوچ کرے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے ، تو رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور ہو جاتے ہیں : إذا كذب العبد تباعد عنه الملك ميلًا من نتن ما جاء به ‘‘ ( سنن ترمذی:۱۹۷۲) ترجمہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس سے جو بد بو آتی ہے اس کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہو جا تا ہے ۔‘‘ ایک حدیث میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کوفسق و فجور اور گناہ کی طرف لے جانے والی بات شمار کیا ہے ۔حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں: " ...... إن الكذب يهدي إلى الفجور، وإن الفجور يهدي إلى النار، وإن الرجل ليكذب حتى يكتب عند اللہ کذابا‘‘ (صحیح بخاری ،حدیث:۲۰۹۴) ترجمہ:’’۔۔۔۔۔۔ یقیناً جھوٹ برائی کی رہنمائی کرتا ہے اور برائی جہنم میں لے جاتی ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے ، تا آں کہ اللہ کے یہاں ’’کذا اب‘‘ ( بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا ) لکھا جا تا ہے ۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں جھوٹ بولنے کو بڑی خیانت قرار دیا ہے۔ خیانت تو خود ہی ایک مبغوض عمل ہے، پھر اس کا بڑا ہونا یہ کتنی بڑی بات ہے! حدیث ذیل میں ملاحظہ فرمائیں: كبرت خيانة أن تحدث أخاك حديثا هو لك به مصدق، وأنت له به کاذب‘‘‘ ( سنن ابوداود،حدیث:۴۹۷۱) ترجمہ:’مید ایک بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات بیان کرو، جس حوالے سے وہ تجھے سچا سمجھتا ہے، حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو

ایک حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ شمار کیا ہے: ’’عن أبي بكرة -رضي الله عنه قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: "ألا أنبئكم بأكبر الكبائر ثلاثا، قالوا: بلى يا رسول الله! قال: الإشتراك بالله، وعقوق الوالدين -وجلس وكان متكئا فقال ألا وقول الزور. قال: فما زال یکر رها حتى قلنا: ليته سکت. ‘‘(صحیح بخاری ،حدیث: ۲۲۵۴)

’’ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: کیا میں تمہیں وہ گناہ نہ بتلاؤں جو کبیرہ گناہوں میں بھی بڑے ہیں؟ تین بارفر مایا۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا: ہاں! اے اللہ کے رسول!۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( تکیہ پر ٹیک لگاۓ ہوۓ تھے، پھر فر مایا: ’خبردار ! اور جھوٹ بولنا بھی( کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ ہے ) ۔‘‘ آپ اس جملے کو اس کثرت سے بار بار فرمانے لگے کہ ہم یہ کہہ رہے تھے کہ کاش آپ چپ ہو جائیں ۔ صرف یہی نہیں کہ ایسا جھوٹ جس میں فساد و بگاڑ اور ایک آدمی پر اس جھوٹ سے ظلم ہورہا ہو، وہی ممنوع ہے، بلکہ لطف اندوزی اور ہننے ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنا ممنوع ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفر مایا: ويل للذي يحدث بالحديث ليضحك به القوم فيكذب ويل له، ویل لہ‘‘ ( سنن ترمذی ، حدیث:۲۳۱۵) ترجمہ: ’وہ شخص برباد ہو جو ایسی بات بیان کرتا ہے ، تا کہ اس سے لوگ ہنسیں ، لہذا وہ جھوٹ تک بول جا تا ہے، ایسے شخص کے لیے بر بادی ہو، ایسےشخص کے لیے بر بادی ہو ‘‘ جھوٹ بولنا حرام ہے شریعت مطہرہ اسلامیہ میں جھوٹ بولنا اکبر کبائر ( کبیرہ گناہوں میں بھی بڑا گناہ اور حرام ہے، جیسا کہ قرآن واحادیث کی تعلیمات سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: إنّما يفترى الكذب الذين لا يؤمنون بآيات الله وأولئك هم الكاذبون. (سورۃ انحل:۱۰۵) ترجمہ:’’پس جھوٹ افترا کر نے والے تو یہ ہی لوگ ہیں، جواللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور بیلوگ ہیں پورے جھوٹے ‘‘ ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے: "ولا تقولوا لما تصف ألسنتكم الكذب هذا خلال وهذا حرام يتفتروا على الله الكذب إن الذين يفترون على الله الكذب لا يفلحون‘‘. (سورۃ انحل:۱۱۶) ترجمہ:’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹاز بانی دعوئی ہے، ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے ، جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے، بلاشبہ جولوگ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں ، وہ فلاح نہ پاویں گے ۔‘‘ 

چند مواقع پر جھوٹ کی اجازت

شیخ الاسلام ابوزکر یامحی الدین یحییٰ بن شرف نووی (۲۳۱ -۲ ۲۷ھ ) اپنی مشہور کتاب: ’’ریاض الصالحین‘‘ میں’’باب بیان ما يجوز من الکذب ‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں: ’’ آپ جان لیں کہ جھوٹ اگر چہ اس کی اصل حرام ہے، مگر بعض حالات میں چند شرائط کے ساتھ جائز ہے ۔....اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بات چیت مقاصد ( تک حصول) کا وسیلہ ہے،لہذا ہر وہ اچھا مقصد جس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہو، وہاں جھوٹ بولنا حرام ہے ۔ اگر اس کا حصول بغیر جھوٹ کے ممکن ہی نہ ہو، وہاں جھوٹ بولنا جائز ہے ۔ پھر اگر اس مقصد کا حاصل کر نا’مباح‘‘ ہے، تو جھوٹ بولنا بھی مباح کے درجے میں ہے۔ اگر اس کا حصول واجب ہے تو جھوٹ بولنا بھی واجب کے درجے میں ہے ۔ چنانچہ جب ایک مسلمان کسی ایسے ظالم سے چھپ جائے ، جو اس کا قتل کرنا چاہتا ہے، یا پھر اس کا مال چھینا چاہتا ہے اور اس نے اس مال کو چھپا کر کہیں رکھ دیا ہو، پھر ایک شخص سے اس حوالے سے سوال کیا جا تا ہے کہ وہ شخص یا مال کہاں ہے؟ تو یہاں اس ( شخص یا مال ) کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے ۔ اسی طرح کسی کے پاس امانت رکھی ہوئی ہو، ایک ظالم شخص اس کو غصب کر نا چاہتا ہے، تو یہاں بھی اس کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے۔ زیادہ محتاط طریقہ یہ ہے کہ ان صورتوں میں ’’ توریہ اختیار کیا جاۓ ۔ توریہ کا مطلب یہ ہے کہ ( بولنے والاشخص اپنے الفاظ سے ایسے درست مقصود کا ارادہ کرے، جو اس کے لحاظ سے جھوٹ نہ ہو، اگر چہ ظاہری الفاظ اور مخاطب کی سمجھ کے اعتبار سے وہ جھوٹ ہو۔ اگر وہ شخص’’توری سے کام لینے کے بجاۓ صراحتاً جھوٹ بھی بولتا ہے، تو میدان صورتوں میں حرام نہیں ہے ۔‘‘ (باب بيان ما يجوز من الكذب،رياض الصالحين)

جھوٹ اعتماد ویقین کو ختم کر دیتا ہے

مذکورہ بالا استثنائی صورتوں کے علاوہ ہمیں جھوٹ بولنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ہے،لہذا جھوٹ بولنا دنیا وآخرت میں سخت نقصان اور محرومی کا سبب ہے۔ جھوٹ اللہ رب العالمین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہے۔ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے، جو دوسری بیماریوں کے مقابلہ میں بہت عام ہے ۔لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے جھوٹ کا ارتکاب کر تے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس جھوٹ سے انھوں نے کیا پایا اور کیا کھویا ؟ جب لوگوں کو جھوٹے شخص کی پہچان ہو جاتی ہے، تو لوگ اس کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں ۔ جھوٹ بولنے والا شخص بھی کبھار حقیقی پر یشانی میں ہوتا ہے مگر سنے والا اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایسے شخص پر یقین کرنا مشکل ہو جا تا ہے، کیوں کہ وہ اپنے اعتماد و یقین کو مجروح کر چکا ہے ۔

حرف آخر

جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتی ہے ۔ لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے ۔ دو آدمیوں کے درمیان عداوت دشمنی کو پروان چڑھاتی ہے ۔ اس سے آپس میں نا چاقی بڑھتی ہے۔ اگر ہم ایک صالح معاشرہ کا فرد بنتا چاہتے ہیں، تو یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم لوگوں کو جھوٹ کے مفاسد سے آ گاہ اور باخبر کر میں، جھوٹے لوگوں کی خبر پر اعتمادنہ کر میں کسی بھی بات کی تحقیق کیے بغیر اس پر ردعمل نہ دیں۔اگر ایک آدمی کوئی بات آپ سے نقل کرتا ہے تو اس سے اس بات کے ثبوت کا مطالبہ کر میں۔ اگر وہ ثبوت پیش نہیں کر پاتا تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں اور اسے دھتکار ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت نا پسند نہیں تھی ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہو جا تا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل صاف نہیں ہوتا ، جب تک یہ معلوم نہ ہو جا تا کہ اس نے اللہ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے تو بہ نہیں کر لی ہے ۔(مسنداحمد، بحوالہ احیاءالعلوم، ج:۳،ص:۲۰۹)

Subscribe YouTube Channel

https://youtube.com/c/IslamicKnowledgeTV



تبصرے

Reed more posts

نوجوان نسل کی بے راہ روی اور غیر ازدواجی تعلقات

جہیز کی لعنت کا خاتمہ ضروری ہے

: اول جیش من امتی

اولاد پر والدین کے حقوق اور ہمارے نوجوان

زنا: ایک سماجی ناسور

حلال روزی کما نافرض ہے

اسلام میں لَو یعنی پیار و محبت کرنا کیسا ہے..

طلاق کے علاوہ کن چیزوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

📘 دستورِ ہند؛ ایک معروضی مطالعہ 🇳🇪