اولاد پر والدین کے حقوق اور ہمارے نوجوان

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين محمد و آله وصحبه أجمعين أما بعد فقد قال اللہ تعالی فی کلامہ المجید، اعوذباللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا إما يبلغن عندك الكبر أحدهما أو كلاهما فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما وقل لهما قولا كريما واخفض لهما جناح الثل من الرحمة وقل رب ارحمهما كما ربياني صغيرا ۔ (بنی اسرائیل:۲۴) عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال :أقبل رجل إلى نبي الله - صلی اللہ علیہ وسلم فقال : أبايعك على الهجرة والجهاد أبتغى الأجر من الله قال: فهل من والديك احد حي قال نعم بل كلاهما. قال: فتبتغي الأجر من الله قال نعم قال فارجع إلى والديك فأحسن صحبتهما"۔ (مسلم :۶۶۷۱)

سامعین محترم و حاضرین کرام

اسلامی تعلیمات کا جب ہم بہ غور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں دوطرح کے حقوق کا پتہ چلتا ہے ، ایک تو حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد ۔ خدا کو ایک ماننا ،تنہا اس کی عبادت کرنا ،نماز پڑھنا ، روزہ رکھنا ، حج کرنا وغیرہ یہ سب حقوق اللہ ہیں ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک ، اولاد کے ساتھ رحم و کرم ، یتیموں مسکینوں اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ یہ سب حقوق العباد ہیں ۔


حقوق اللہ میں سب سے بڑا حق تو حید و خدا پرستی ہے کہ ایک خدائے پاک کی عبادت کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اور اسی سے مدد طلب کر یں۔ حقوق العباد میں سب سے بڑا حق یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کر یں ، ان کی اطاعت و فرماں برداری کریں اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھیں! یہی وجہ ہے کہ پروردگار عالم نے ایک طرف بندوں کو شرک سے روکا تو ساتھ ہی دوسری جانب وبالوالدین احسانا کا درس دے کر والدین کو اف تک کہنے سے منع فرمایا۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے تعلق سے بے شمار آیات کریمہ ہیں، ان میں سے کچھ کو یہاں پیش کیا جا تا ہے، خدا تعالی کا فرمان ہے :وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا إما يبلغن عندك الكبر أحدهما أو كلاهما فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما وقل لهما قولاً کریماً 

اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجنا اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا،اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اف تک نہ کہنا ، اور ناجھڑ کنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ، اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچانا، اور عرض کرنا کہ اے میرے رب ! تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھوٹے میں پالا ( سورہ بنی اسرائیل آیت ، ۲۳، ۲۴ ) 

دوسری جگہ ارشاد ہے :واذأخذنا ميثاق بني إسرائيل لا تعبدون إلّا الله وبالوالدين إحسانا 

اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو، اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو ( سورہ بقرہ ،آیت، ۸۳) 

ایک اور مقام پر فرمان الہی ہے واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وبالوالدين إحسانا اور اللہ کی بندگی کرواور اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو( سورہ نساء آیت ۳۲۰ )

ان تمام آیتوں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، خاص کر اس وقت جب ان کے اوپر ضعف کا غلبہ ہو، اعضا میں قوت نار ہے اور وہ ہماری ضرورت محسوس کریں ۔ جس طرح بچپن میں ہم ان کے پاس بے طاقت تھے ایسے ہی آخر عمر میں وہ ہمارے پاس ناتواں ہو جائیں تو ہم ان کی مدد کریں اور انہیں اف تک نہ کہیں یعنی ایسا کلمہ منہ سے نہ نکالیں جس سے بی سمجھا جائے کہ ان کی طرف سے طبیعت پر کچھ گرانی ہے۔

والدین کے حقوق اور حسن سلوک کے تعلق سے بے شمار احادیث کریمہ ہیں جن میں حضور اکرم ﷺ نے بہت تاکید کے ساتھ حکم دیا کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور انہیں تکلیف نہ دیں ۔ چند احادیث بھی ملاحظہ فرماتے چلیں! مشہور صحابی رسول حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،ایک شخص نے سرکار دوعالم ﷺ سے پوچھا کہ بیٹے پر والدین کا کیا حق ہے، تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا، یہ دونوں تیری جنت بھی اور دوزخ بھی ، یعنی اگر تم ان کے حق میں رحم وکرم اور عجز و انکساری کے پیکر بن گئے تو تمہاری لئے جنت ورنہ دوزخ کے مستحق ہوگے ۔(مشکوۃ شریف) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ اپنے ماں باپ کا اطاعت شعار و خدمت گزار فرزند، جب ان کی طرف رحمت ومحبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے ہر نگاہ کے بدلے میں حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے ،صحابہ کرام نے پوچھا ’’ یا رسول اللہ !اگر چہ وہ ہر روز سو بار دیکھے؟ آپ نے فرمایا! ہاں ، اگر چہ وہ سو بار دیکھے ۔(مشکوۃ شریف)

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سر کار دوعالم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں تین بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ، کیوں نہیں یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اور والدین کی نافرمانی کرنا ،جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا۔(مشکوۃ شریف ) 

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس میں تین خصلتیں ہوں گی، اللہ اس کی موت آسان کر دے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل کر دے گا ، کمز ور سے نرمی ، ماں ، باپ سے شفقت اور غلام سے اچھاسلوک‘‘۔( ترمذی ) اگر کوئی چاہے کہ اس کی موت آسان ہو جائے، وقت نزاع اس پر اپنا کرم فرمائے اور حشر کے بعداسے جنتوں میں داخل فرمائے تو اسے چاہیے کہ والدین کی خدمت و اطاعت کرے ۔ دنیا میں انسان کے پاس بہت سی نعمتیں ہوسکتی ہیں اور زندگی میں عیش و خوش حالی کے ہزار وسائل ہو سکتے ہیں ،مگر والدین ایک ایسی نعمت اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ ایک ایسی دولت ہے جس کا کوئی بدل نہیں ، والدین نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد کی پیدائش کا سبب ہوتے ہیں اور اس کی پرورش و پرداخت میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں؛ بلکہ والدین اپنی اولاد کی ہرقسم کی کامیابی و کامرانی کے لیے ہمہ وقت دعا گور بہتے اور جب تک جان میں جان رہے ،خودان کے لیے ہر ممکن جتن کرتے ہیں ۔ دنیا میں اگر کسی کی محبت بے لوث اور بے غرض ہوتی ہے، تو وہ ماں باپ ہی ہیں ۔ جب انسان باشعور ہو جا تا ہے، پڑھ لکھ کر کام یاب ہو جا تا اور اس کا شمار معاشرے کے باعزت اور باوقار افراد میں ہونے لگتا ہے، تو مختلف انسانی طبقوں میں اس کے ہزار چاہنے والے پیدا ہو جاتے ہیں اور اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ، اس سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے اور اس سے اپنے تعلق اور محبت کا اظہار کرتے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک کی اس انسان سے کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے ۔ کوئی آپ سے اس لیے تعلق بنانا چاہتا ہے کہ آپ کسی بڑی سرکاری یا غیر سرکاری پوسٹ پر ہیں اور اسے توقع ہے کہ آپ کے ذریعے فائدہ ہوگا، آپ بڑے بزنس مین ہیں تو لوگ اس لیے آپ سے ملتے اور محبت کرتے ہیں کہ آپ اپنی صنعت اور بزنس میں انھیں بھی شریک کر یں گے یا نھیں مالی منفعت پہنچائیں گے ۔ آپ بڑے قابل صاحب قلم اور مصنف ہیں ، تولوگ اس لیے آپ کو چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی تحریروں سے فائدہ اٹھاتے اور آپ کی فکر سے استفادہ کرتے ہیں ۔ آپ بڑے دولت مند اور ثروت مند انسان ہیں تو لوگ اس لیے آپ کے اردگرد جمع لگائے رکھتے ہیں کہ انھیں کچھ نہ کچھ ملنے کی امید ہوتی ہے حتی کہ انسان کی بیوی اور بچے بھی اس سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ اس سے ان کی زندگیاں وابستہ ہوتی ہیں اور حال ومستقبل میں اس کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔سہارے کی ضرورت تو اخیر عمر میں والدین کو بھی ہوتی ہے لیکن ان کی محبت اپنے بچوں سے بے غرض ہوتی ہے۔ چناں چہ ایسا بہت دیکھا گیا ہے کہ بعض بچے بڑے ہو کر اور کام یابی کی بلند سیڑھیوں پر پہنچنے کے بعد اپنے ماں باپ سے منھ موڑ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتے ، ان کا خیال نہیں رکھتے اور ان کے حقوق کو ادا نہیں کرتے ،مگر اس سب کے باوجودان کے ماں باپ شکایت نہیں کرتے اور ہمیشہ ان کی مزید کام یابی وسرخ روئی کے لیے دعا گور ہتے ہیں ۔ والدین کو بچے کی پیدائش سے لے کر اس کی پرورش اور تعلیم وتربیت اور اسے بنانے سنوارنے اور ایک کام یاب و با کمال انسان بنانے میں بڑی مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے اور پریشانیوں کو برداشت کرنا پڑ تا ہے ۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی آمدنی قلیل ہوتی اور اس کے گھر میں کھانے کو زیادہ سامان نہیں ہوتا ،تو ایسے میں ماں باپ دونوں خود بھوکے رہتے اور اپنے بچے کو پیٹ بھر کے کھلاتے ہیں ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماں اور باپ میں سے کوئی ایک سخت بیمار ہے ،لیکن اگر اسی دوران ان کے بچے کو ادنی سی بھی تکلیف ہو اور بیماری کا احساس ہوتو وہ اپنی ساری تکلیف بھول جاتے اور اپنے بچے کو راحت وسکون پہنچانے میں لگ جاتے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں ۔الغرض اپنی اولاد کی پرورش میں والدین بڑی قربانیاں دیتے اور بے شمار مشقتوں کو برداشت کرتے ہیں ، اسی وجہ سے اسلام نے اولاد پر والدین کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے اور ان کے ساتھ ہر وقت اور تادم حیات حسن سلوک کی تلقین کی ہے اور مرنے کے بعد بھی ان کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرنے اور ایصال ثواب کی ہدایت کی ہے ۔


زندگی کے جملہ معاملات میں والدین کے آرام وسکون کا خیال رکھنا اور جملہ ضروریات پوری کرنا اولاد پر فرض ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث اس بات کی وضاحت کیلئے کافی ہے کہ صرف والدین کی زندگی میں ہی نہیں؛ بلکہ ان کی موت کے بعد بھی ان کے حقوق قائم رہتے ہیں ۔اذا جاء رجل من بني سلمة فقال يارسول ا الله هل بقي من بر أبوي شيئ ابرهما به بعد موتهما قال نعم الصلوة عليهما والاستغفار لهما وإنفاذ عهدهما من بعدهما وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما واكرام صديقهما ( ابی داؤدستن : ۵۱۴۲) ترجمہ: ’’ بنی سلمہ سے ایک شخص حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا والدین سے کی جانے والی نیکیوں میں سے کوئی نیکی ایسی ہے جو ہم ان کی موت کے بعد ان کے ساتھ کر میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں! ان پر جنازہ پڑھنا ( باعزت کفن و دفن اور جنازہ کا اہتمام کرنا ) ان کی بخشش کی دعا کرنا، والدین کے مرنے کے بعد ان کے وعدوں کو پورا کرنا۔ والدین کے خونی رشتہ داروں کا احترام کرنا اور والدین کے دوستوں کا احترام کرنا۔ 

اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کے مرنے کے بعد ان کے حقوق گنواتے ہوئے فرمایا: 

والدین کے باعزت نماز جنازہ (کفن و دفن ) کا اہتمام کرنا۔ 

عمر بھر والدین کے لئے بخشش کی دعا کرنا۔ 

والدین کے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرنا۔ والدین کے( ننھیال اور ددھیال کے خونی

 رشتہ داروں کا احترام کرنا۔ 

والدین کے دوستوں کا بھی احترام کرنا اولاد پر فرض ہے۔ 

جودین والدین کومر نے کے بعد اس قدر حقوق عطا کر رہا ہے وہ زندگی میں کس قدر حسن سلوک کا درس دیتا ہوگا۔ ایک طرف والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کی اس قدر تا کید ہے، دوسری طرف ہمارے معاشرہ کی وہ صورت حال ہے جسے دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے، اسلامی تعلیمات سے دوری کا اثر یہ ہے کہ ماں باپ کی خدمت تو دور رہی، بہت سے بدنصیب نو جوان اپنے والدین پر دست درازی میں بھی تامل نہیں کرتے ، اب تو اخبارات میں اولاد کے ہاتھوں ماں باپ کے قتل کی خبر بھی آنے لگی ہے، والدین کی حکم عدولی ، ان کی مرضی کے خلاف کام ، گفتگو کے دوران سخت لہجہ اختیار کرنا اب اتنا عام ہو گیا ہے کہ کسی کو حیرت بھی نہیں ہوتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قیامت کے قریب ماں باپ کی نافرمانی ہوگی ۔ دورِ حاضر کا یہ بھی ایک خطرناک سابی فتنہ ہے ، جس کے نتیجے میں ہماری اخلاقی زندگی کھوکھلی ہوتی جارہی ہے مخلوط خاندانوں میں رشتوں کا تقدس بری طرح پامال ہورہا ہے، باپ جب تک کما تا ہے، والدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی ہے ، مگر جیسے ہی ریٹائیڈ اور فارغ ہوجا تا ہے تو اسے بیکار اور فالتو تصور کیا جانے لگتا ہے ، ماں باپ کا وجود کتنی بڑی نعمت ہے اس کی قدر وہی جانتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں ۔ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی نے عرض کیا کہ اگر ہمارے ماں باپ ہم پر ظلم بھی کر میں، تو کیا ہم پھر بھی ان کے ساتھ احسان کر یں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگر وہ ظلم بھی کر میں ، اگر وہ ظلم بھی کر میں، اگر وہ ظلم بھی کر میں معلوم ہوا کہ بڑھاپے کی وجہ سے اگر ماں باپ کا تحمل کمزور ہو جائے ، ان کے دماغ و دل کمزور ہو جائیں اور وہ اولاد سے ظلم وزیادتی بھی کر بیٹھیں توان کے ظلم پر صبر کرو۔ جب ماں باپ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو بچے کی طرح کمزور ہو جاتے ہیں ، چھوٹے بچے کی طرح ان کے دل و دماغ متاثر ہو جاتے ہیں ، لہذا اگر ان سے کوئی غلطی ہو جاۓ ، یا وہ بے جا ڈانٹ ڈپٹ کر میں تو اس کو برداشت کر یں ۔


ایک صحابی ہیں حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ وہ اپنے والد جاہمہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جہاد کرنے کی اجازت طلب کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ، کیا تمہاری ماں زندہ ہیں انہوں نے کہا ، ہاں زندہ ہیں ۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ انہیں کی خدمت میں لگے رہو کہ جنت انکے قدموں کے نیچے ہے ۔غرض والدین کے بڑے حقوق شریعت نے بیان کئے ہیں ۔ جہاں والدین کا حق اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالی کی اطاعت وعبادت کے بعد سب سے مقدم ان کی فرماں برداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک ہے وہیں ان کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بدسلوکی اللہ بزرگ و برتر کی لعنت کا سبب ہے، اور جہاں والدین کی خدمت دنیا وآخرت میں سرخ روئی کا سبب ہے وہیں ان کی حق تلفی دونوں جہاں میں تباہی کا باعث ہے جولوگ اپنے والدین کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں ان کو دنیا ہی میں سز املتی ہے اور بری موت مرتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کل الذنوب يؤخر الله ماشاء منها إلى يوم القيمة الأحقوق الوالدين فإن الله يعجله لصاحبه في الحياة قبل الممات ۔ (مستدرک علی الصحیحین ) اللہ تعالی چاہتے ہیں تو سب گناہوں کی سزا قیامت تک مؤخر کر دیتے ہیں ،لیکن والدین کی حق تلفی اور نافرمانی کی سزا مرنے سے پہلے زندگی ہی میں دیدیتے ہیں ۔اس سے والدین کی اطاعت وفرمانبرداری کی اہمیت اور نافرمانی کی سخت وعید کا پتہ چلتا کہ ہر گناہ کی سزامر نے کے بعد ملے گی ، مگر والدین کی نافرمانی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ تعالی دنیا ہی میں اس کوسزاد یدیتے ہیں تا کہ دوسروں کے لئے عبرت ونصیحت ہو ۔ مختصر یہ کہ اولاد پر والدین کا حق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بڑا اور اہم حق ہے، اس لیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کے لیے بے انتہا محنت اور قربانیاں پیش کرتے ہیں ، جن کی وجہ سے وہ حسن سلوک، فرماں برداری اور بدلے کے مستحق قرار پاتے ہیں ، یہی وہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی کا اسلام نے حکم دیا ہے ، ان کا خلاصہ کچھ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے ۔

(1) اللہ کی معصیت کے علاوہ تمام اوامر اور خواہشات میں ان کی اطاعت کی جائے ۔ (2) گفتگو کر نے اور ان کو مخاطب کرنے میں ادب اور نرمی کا خیال کیا جائے اور ان کے حق میں دعا کی جائے ۔ (3) مال اور دیگر ضروریات زندگی میں سے جس کی بھی ان کو ضرورت ہو، ان پر خرچ کیا جائے ، خاص طور پر اس وقت جب وہ کام کرنے پر قادر نہ ہوں ۔ (4) ان کی خدمت کی جائے ، بڑھاپے کے وقت یا مرض اور کمزوری کے وقت ان کی وجہ سے تنگی محسوس کی جائے ۔ (5) ان کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور ان کے دوستوں کا اکرام کیا جائے ، ان کے انتقال کے بعدان کےلیے دعاؤں کا اہتمام کیا جائے اور ان کی وجہ سے قائم ہونے والی رشتہ داریوں کو نہا یا جائے ۔ (6) ماں چوں کہ بچے کی پیدائش اور پھر اس کی پرورش میں باپ سے نسبتاً زیادہ پریشانی اور تکلیف برداشت کرتی ہے؛ اس لیے جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیاماں کا حق اولاد پر باپ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے ۔


موضوع سے متعلق بعض آیات و روایات


 واعبدوا الله ولا تشير كوا به شيئاوبالوالدين إحسانا وبذى القربى واليتامى والمسكين والجار ذي القربي والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبيل وما ملكت أيمنكم إن الله لايحب من كان مختالا فخورا. (سورة النساء)


ترجمہ : اور تم اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرواور اہل قرابت کے ساتھ بھی اور پاس رہنے والے پڑوسی کے ساتھ اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور مسافر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضہ ہیں ۔ بلاشبہ اللہ تعالی ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا ہے جو اپنے کو بڑا سمجھتے اور شیخی مارتے ہوں۔ 


يسلونك ماذا ينفقون قل ما أنفقتم من خير فللوالدين والأقربين واليتمى والمسكين وابن السبيل وما تفعلوا من خير فإن الله به عليم (سورة البقرة) ترجمہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ آپ فرمادیں کہ جو کچھ مال تم کو خرچ کرنا ہوتو ماں باپ کا حق ہے اور قرابت داروں کا اور یتیموں کا محتاجوں اور مسافر کا اور جو نیک کام کریں گے تو اللہ تعالی اس سے باخبر ہے۔


وقضى ربك ألا تعبدوا إلا إياه وبالوالدين إحسانا إما يبلغن عندك الكبر أحدهما أو كلاهما فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما وقل لهما قولا كريما واخفض لهما جناح التالي من الرحمة وقل رب ارحمهما كما ربياني صغيرا (سورة اسراء) ترجمہ : اور تیرے رب نے حکم دیا کہ تم صرف اس کی ہی عبادت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی اف نہ کہو ( یعنی ہوں بھی مت کرنا اور نہ ہی ان کو چھڑ کنا اور ان سے خوب آدب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت و محبت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگاران دونوں پر رحمت فرما جیسے انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا اور پرورش کی ۔


وإذ أخذنا ميثق بني إسريل لا تعبدون إلا الله وبالوالدين إحسانا (سورة البقرة) ترجمہ :اور وہ زمانہ یادکرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے قول وقرار لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرنا اور ماں باپ کی اچھی طرح خدمت کرنا۔


ووصينا الإنسان بولديه إحسانا حملته أمه کرها ووضعته كرها وحمله وفصله ثلثون شهرا حتى إذا بلغ أشده وبلغ أربعين سنة قال رب أوزعني أن أشكر نعمتك التي أنعمت على وعلى ولدي وأن أعمل صلحا ترضاه وأصلح لي في ذريتي إني تبت إليك وإني من المسلمين.(سورةالاحقاف)

ترجمہ : اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑاناتیس مہینے (میں پورا ہوتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جا تا ہے اور چالیس برس کو پہنچتا ہے تو کہتا ہے :اے میرے پروردگار! مجھ کو اس پر مداومت دیجئے کہ میں آپ کی نعمتوں کا شکر کیا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطافرمائی ہیں اور میں نیک کام کروں جس سے آپ خوش ہوں اور میری اولاد میں بھی میرے لیے خیر پیدا کر دیجئے ، میں آپ کی جناب میں تو بہ کرتا ہوں اور میں فرمانبردار ہوں ۔


عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال أقبل رجل إلى نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم - فقال: أبايعك على الهجرة والجهاد أبتغى الأجر من الله قال: فهل من والديك أحد حى. قال : نعم بل كلاهما. قال: فتبتغي الأجر من الله قال نعم . قال : فارجع إلى والديك فأحسن صحبتها"۔ (مسلم :۲۶۷۱)

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : میں ہجرت اور جہاد پر آپ سے بیعت کرنا چاہتا ہوں اور اللہ سے اجر کا طالب ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تیرے ماں باپ میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا : ہاں، بلکہ دونوں زندہ ہیں ۔ آپ نے اس سے پوچھا: کیا تو واقعی اللہ سے اجر کا طالب ہے ۔ اس نے کہا : ہاں! آپ نے فرمایا : پھر تو اپنے والدین کے پاس لوٹ جا اور ان کی اچھی طرح خدمت کر“۔


قال أبو هريرة رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اللعبد المملوك الصالح أجران، والذي نفسي بيده لولا الجهاد في سبيل الله، والحج وبر أمى لأحببت أن أموت وأنا مملوك (صحیح بخاری) ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺﷺﷺ نے فرمایا : نیک غلام کے لیے دوہرا ثواب ہے ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگر اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اور حج بیت اللہ نیز والدہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا نہ ہوتا تو میں یہ پسند کرتا کہ میں کسی کامملوک ( غلام ) رہ کر مرتا۔


عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : ألا أنبئكم بأكبر الكبائر ثلاثا، قالوا بلى يا رسول الله قال: الإشتراك بالله وعقوق الوالدين وجلس وكان متكئا فقال ألا وقول الزور، قال فما زال يكررها حتى قلنا : لیته سکت. (صحیح بخاری) ترجمہ : حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا : کیا میں تمھیں کبیرہ گناہوں کی اطلاع نہ دوں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ نہم اجمعین نے عرض کیا : اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! ہمیں ضرور آگاہ کریں ۔ آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔ پہلے آپ تکیہ لگائے ہوئے تھے پھر اٹھ بیٹھے اور فرمایا : خبردار! اور جھوٹی گواہی دینا۔ پھر مسلسل اس کا تکرار کرتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگ کہنے لگے : کاش! آپ خاموش ہو جائیں ۔

تبصرے

Reed more posts

نوجوان نسل کی بے راہ روی اور غیر ازدواجی تعلقات

جھوٹ معاشرہ کو تباہ و بربادکرتا ہے

جہیز کی لعنت کا خاتمہ ضروری ہے

: اول جیش من امتی

زنا: ایک سماجی ناسور

حلال روزی کما نافرض ہے

اسلام میں لَو یعنی پیار و محبت کرنا کیسا ہے..

طلاق کے علاوہ کن چیزوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

📘 دستورِ ہند؛ ایک معروضی مطالعہ 🇳🇪