ناموس رسالت: جمعہ بیان

 ناموس رسالت: جمعہ بیان 

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم  


وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ، (النحل:۳۶)

 ترجمہ: اور ہم نے یقیناً ہر قوم میں یہ دعوت دیکر رسول بھیجے کہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اور طاغوت سے بچیں۔


فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤ ْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا (النساء: ۶۵) 


ترجمہ: پس ، آپ کے پروردگار کی قسم ! وہ تو مومن ہوہی نہیں سکتے ، جب تک اپنے آپسی جھگڑوں میں آپ کو حَکَم نہ بنائیں ، نیز آپ کے فیصلہ سے اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور پوری طرح سرتسلیم خم کردیں۔



عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏انه قال:‏‏‏‏ والذي نفس محمد بيده، ‏‏‏‏‏‏لا يسمع بي احد من هذه الامة يهودي، ‏‏‏‏‏‏ولانصراني، ‏‏‏‏‏‏ثم يموت ولم يؤمن بالذي ارسلت به، ‏‏‏‏‏‏إلا كان من اصحاب النار۔

(مسلم: ۳۸۶) 


ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اس امت کا کوئی بھی شخص خواہ یہودی ہو نصرانی ، میرے بارے میں سن لیتا ہے پھر مرجاتا ہے اور میری لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان نہیں لاتا تو وہ جہنمی ہے۔


Subscribe our YouTube Channel

https://youtube.com/c/IslamicKnowledgeTV


اللہ رب العزت نے سارے انسانوں سے ایک عہد و پیمان لیا ہے جس کو قرآن مجید میں بیان کیا ہے: 

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ، (الاعراف: ۱۷۲) 


اور (یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ ) جب تمہارے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے خود ان کے بارے میں اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا : کیوں نہیں ، ہم اقرار کرتے ہیں ! ( اللہ نے یہ اقرار اس لئے لیا )کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔

 اس آیت میں اس عظیم الشان عالمگیر عہد و پیمان کا ذکر ہے جو خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے درمیان اس وقت ہوا جب کہ مخلوق اس دنیا میں آئی بھی نہ تھی، جس کو عہد ازل یا عہد الست کہا جاتا ہے، جہاں پر سارے انسانوں نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے پالنہار ہے ہم اسی کی عبادت کریں گے اسی کی اطاعت کریں گے، لیکن دنیا میں آکر انسان وہ عہد و پیمان بھول گیا، اسی کی یاد دہانی کے لیے انبیاء کرام ؑ تشریف لاتے رہے اور آخر میں تاجدار مدینہ محمد عربی ﷺ تشریف لائے۔


تمہید


اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، ایک انسان اگر ان نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو شمار بھی نہیں کرسکتا، جیسا کہ قرآن میں ہے: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا (النحل: ۱۸) 

ترجمہ: اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے،

بندوں پر اگرچہ پروردگار کی نعمتیں بے پناہ ہیں، اس کی نوازشیں بے پایاں اور اس کی عطائیں بے انتہاء ہیں جن کا تقاضا ہے کہ شکر ادا کیا جائے جو ان میں اضافے کا باعث بنے اور اس عزیز و حمید ذات کی تعریف کی جائے تاکہ اس کی رضا مندی حاصل ہو، تاہم ان میں سے سب سے بڑی نعمت کہ اس جیسی کوئی اور نعمت نہیں، وہ اللہ کی یہ نوازش ہے کہ اس نے بشیر و نذیر، سراج منیر، رحمۃ للعالمین نبی کریمﷺکو مبعوث فرمایا، 

يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا، وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا

(الاحزاب:۴۵، ۴۶)

اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ، خوشخبری سنانے والا ، ڈرانے والا ، اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والا اور روشن چراغ بناکر بھیجا ہے۔


لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ، (آل عمران: ۱۶۴)


بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں  میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔


وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، (الانبیاء: ۱۰۷)

اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کیلئے۔



نبیﷺ کا مقام و مرتبہ 


سعادت و فلاح دنیاوی ہو یا اخروی رسولﷺ کے ذریعے ہی ممکن ہے، اچھے برے میں فرق  انھیں کے ذریعے معلوم ہوسکتا ہے، رضائے الہی کا حصول صرف انھیں کے راستے سے ممکن ہے، چنانچہ  شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں: "بندوں کیلئے پیغام رسالت انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں،  لوگوں کو پیغام رسالت  کی ہر چیز سے بڑھ کر ضرورت ہے؛ کیونکہ پیغام رسالت کائنات کیلئے روشنی، اور آب حیات  ہے،  اس لئے اُس دم تک کائنات قائم رہے گی جب تک رسولوں کے آثار باقی رہیں گے،  چنانچہ جس وقت رسولوں کے اثرات دنیا سے مکمل طور پر مٹ جائیں گے تو اللہ تعالی پوری کائنات کو تباہ کر کے قیامت قائم کر دے گا۔


 نبی ﷺ سب سے اعلیٰ و افضل ہیں، اس امت کی ترقی و شان و شوکت آپ کی وجہ سے ہے، نیکیوں میں سب سے آگے نکلنے کا شرف اس امت کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وجہ سے ہی حاصل ہوا ہے، آپ کی عظمت و شان کی وجہ سے آپ کے صحابہ تمام انبیاء کے صحابہ سے افضل تھے، آپ کی صدی بہترین صدی ہے، اور اس صدی کو بھی آپ کی وجہ سے فضیلت ملی، اللہ کے فضل کی وجہ سے قیامت کے دن آپ کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی، اس امت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے شرف بخشا گیا، اللہ تعالی نے آپ کو ساری مخلوق سے چنا، اور آپ کو اولادِ آدم   کا سربراہ بنایا،  اللہ تعالی نے آپ کو ساری مخلوقات پر فضیلت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی نے آلِ اسماعیل سے کنانہ کو چنا، پھر کنانہ سے قریش کو، اور قریش سے بنی ہاشم کو چنا، آخر میں مجھے بنی ہاشم  سے چنا (مسلم) 


اللہ تعالی نے آپ کو  شرف بخشتے ہوئے آپ کی عمر کی قسم کھائی،  اللہ تعالی نے آپ کا ذکر دیگر انبیاء کی طرح قرآن مجید میں نام لے کر نہیں کیا، بلکہ جب بھی ذکر کیا تو نبوت و رسالت  کے ساتھ متصف کر کے نام لیا۔

اللہ تعالی  نے آپ کے ذریعے نبوت و رسالت کا اختتام فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ، (الأحزاب: ۴۰) محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں، لیکن  آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔


اللہ تعالی نے آپکے ذریعے دین  مکمل فرمایا:الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا، (المائدہ:۳) آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین  پسند کر لیا۔


نبیﷺ کی شان اقدس میں گستاخی


دنیا کے چند غلیظ ترین افراد کبھی کبھی کائنات کی سب سے عظیم ہستی کی شان اقدس میں گستاخی کی جسارت کرکے دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں اور پھر اس کو آزادی اظہار رائے کے نام پر جاری رکھنے پر اصرار بھی کرتے ہیں، حالانکہ رائے کی آزادی اور کسی کی دل آزاری میں زمین آسمان کا فرق ہے دنیا کے کسی معاشرے میں رائے کے اظہار کی ایسی آزادی نہیں کہ جس کی چاہا عزت خاک میں ملادی اور جس کے چاہا دل کے پرخچے اڑا دیے، ہر معاشرے نےاپنے اپنے حالات کے مطابق اظہار رائے کی حدود مقرر کی ہیں حقائق تک کو بیان کرنے کے لئے بھی حدود وقیود پائی جاتی ہیں، لیکن ادھر چند سالوں سے فرزندانِ مغرب نے اس ملعون عمل کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے، تو ہمارا غم وغصہ تو ایمان کی علامت ہے؛ لیکن ردِعمل میں ہمیں اسلام اور ملتِ اسلام کی مصلحت دیکھنی ہے، اگر ہم موٴمن اور واقعی ”عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم“ ہیں، نہیں تو ہم صرف اپنے نفس کو تسکین دینے والے ہوں گے، اور نامِ عشق کو رسوا کرنے والے۔


ایک اہم واقعہ 


گذشتہ صدی کے ہمارے نامور علماء میں سے مولانا سید مناظراحسن گیلانی (م-۱۹۷۵ء) جن کو علم کے ساتھ اللہ نے عشقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت سے بھی خوب خوب نوازا تھا، دارالعلوم دیوبند میں اپنی طالب علمی کے احوال لکھتے ہوئے اپنے استاذ حضرت شیخ الہندمولانامحمودحسنؒ (م-۱۹۲۰/) کے درس کا ایک واقعہ سناتے ہیں: ”بخاری شریف کا سبق ہورہا تھا، مشہور حدیث گذری کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک موٴمن نہیں ہوسکتا، جب تک اس کے مال، بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ، میں اس کے لیے محبوب نہ ہوجاؤں۔ فقیر نے عرض کیا کہ ”بحمداللہ عام مسلمان بھی سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کو توایک حد تک مسلمان برداشت کرلیتا ہے؛ لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کردیتی ہے کہ ہوش حواس کھوبیٹھتے ہیں، آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے ہیں۔“ یہ سن کر حضرت نے فرمایا: ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا؛ لیکن کیوں ہوتا ہے؟ تہہ تک تمہاری نظر نہیں پہونچی، محبت کا اقتضا یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے؛ لیکن عام مسلمانوں کو جو برتاؤ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیِ مبارک کے ساتھ ہے وہ بھی ہمارے تمہارے سامنے ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا چاہا تھا اور ہم کیا کررہے ہیں، اس سے کون ناواقف ہے، پھر سبکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے اس کی وجہ محبت تو نہیں ہوسکتی۔“

خاکسار نے عرض کیاکہ تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟ نفسیاتِ انسانی کے اس مبصرِ حاذق نے فرمایا کہ ”سوچوگے تو درحقیقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی میں اپنی سبکی کا غیرشعوری احساس پوشیدہ ہوتا ہے، مسلمانوں کی خودی اور انا مجروح ہوتی ہے، ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول مانتے ہیں تم اس کی اہانت نہیں کرسکتے، چوٹ درحقیقت اپنی اسی ”انانیت“ پر پڑتی ہے؛ لیکن مغالطہ ہوتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے ان کوانتقام پر آمادہ کیا ہے، نفس کا یہ دھوکہ ہے، محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ ہو، اذان ہورہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے موٴذن کی پکار پر نہیں دوڑتا، اسے انصاف سے کام لینا چاہیے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منھ پہ کس حد تک پھبتا ہے۔“ (احاطہٴ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن، ص۱۵۳-۱۵۴)


گستاخئ رسول اور ہماری ذمہ داری


آج کل شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخیوں کا سلسلہ چل پڑا ہے، ہر ماہ دو ماہ بعد سوشل میڈیا پر کچھ گستاخانہ ویڈیوز گردش کرتے نظر آتے ہیں، اور پھر کچھ دنوں بعد وہ گستاخ مرد یا عورت معافی مانگتے نظر آتے ہیں! اور یوں سارا معاملہ نسیا منسیا ہوجاتا ہے، وہ گستاخ مرد یا عورت اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اپنے حلقہ میں وہ ہیرو بن جاتے ہیں اور پھر جیساکہ مشہور ہے تربوز کو دیکھ کر تربوز رنگ پکڑتا ہے، ان کا دیکھا دیکھی بہت سے لوگ اس طرح کا کام کرتے ہیں۔

 ان کے خلاف زمینی سطح پر قانونی کاروائی کرنا اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے، ان شاء اللہ پھر کسی میں ہمت نہیں ہوگی شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر زبان درازی کرتے ہوے اپنی دکان چمکانے کی!

اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اس کے اسباب کو معلوم کریں اور اس کا تدارک کرنے کی کوشش کریں، ایک بڑی وجہ جہالت اور عدم معرفت ہے، اس ترقی کے دور میں بھی لوگوں کی ایک بھاری تعداد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت، آپ کی شخصیت، آپ کی سیرت اور آپ کی تعلیم وہدایات سے یکسر نابلد ہے،حتیٰ کہ اپنے کو مسلمان کہلانے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد آپ کے بارے میں بہت ہی معمولی معلومات رکھتی ہے، لہٰذا ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ حسب استطاعت اپنے قول وعمل اور تحریر وتقریر کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عام کرے، اور نبیﷺ کے حقوق کو جانے اور ان حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرے۔



نبی کریمﷺ کے حقوق


ہر عقلمند اور صاحب ایمان جانتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں جن برکات سے نوازا ہے وہ شمار سے باہر ہیں ، وہ برکات صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ آخرت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت و غیرہ کی شکل میں ظاہر ہوں گی، اس پر غور کرلینے کے بعد ہر صاحب بصیرت اس بات کا اعتراف کرلے گا کہ اللہ تبارک و تعالی کے بعد سب سے زیادہ اور سب سے بڑا حق نبی ﷺ کا ہے۔

نبوی حقوق  عظیم الشان، معظم و مکرّم اور ہمارے لیے فرض و واجب بھی ہیں، ان کی اہمیت آقا کے اپنے غلام، اور والدین کے اپنی اولاد پر حقوق سے بھی زیادہ ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں آپ کے ذریعے اخروی آگ سے بچایا، اور آپکی وجہ سے ہماری روح، بدن، عزت، مال، اہل  و عیال دنیا میں محفوظ ہوئے، اللہ تعالی نے ہمیں ہدایت دی۔


ہر انسان پر مختلف حیثیتوں سے مختلف حقوق عائد ہوتے ہیں جن کی ادائیگی ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسان کے زندہ رہنے کے لئے کھانا اور پینا ضروری ہے، آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر بیٹا اپنے والدین کے اور والدین اپنے اولاد کے، شوہر اپنی بیوی کے اور بیوی اپنے شوہر کے، مالک اپنے نوکر کے اور نوکر اپنے مالک کے، استاد اپنے شاگرد کے اور شاگرد اپنے استاد کے اوراسی طرح حکومت اپنی رعایا کے اور رعایا اپنی حکومت کے حقوق ادانہ کریں، تواس صورت میں ایک انسانی معاشرہ کی کتنی بد نما تصویر ہوگی؟اور کیا اسے انسانوں کا معاشرہ کہا جا سکے گا؟ ہر گز نہیں، 

اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کے ہر فرد کو اپنے اوپر عائدحقوق کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دلائی اور انہیں حقوق کے ادا نہ کر نے کے نقصانات سے ڈرایا۔


 نبی کریم ﷺ کی امتِ اسلامیہ پر مہربانیاں محتاجِ بیان نہیں، امت کی ہدایت کے لئے آپﷺ کی غم خواری واضح ہے، اس لئے آپ ﷺکے حقوق امت کے ہر فرد کے ذمے ہیں، یہاں اختصار کے ساتھ ان حقوق کو بیان کیا جاتا ہے: 


امت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق


پہلا حق

ایمان لانا


نبیﷺ کے حقوق میں سب سے پہلا اور اہم ترین حق یہ ہے کہ آپ ﷺ پر ایمان لایا جائے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان،آپ کی تصدیق دین کا بنیادی اصول ہے، ایمان کے جو بنیادی ارکان ہیں، اُن میں رسول اللہﷺ پر ایمان لانا بھی داخل ہے، اگر کوئی شخص اللہ پر ایمان لانے کا دعویدار ہو اور آپﷺ کی رسالت کا انکار کرے، اُسے مومن قرار نہیں دیا جا سکتا، رسالتِ محمدی کا اقرار  وحدانیت الہی کے اقرار کے ساتھ منسلک کیا گیا، اللہ تعالی نے آپ کو عرب و عجم، جن و انس  سب کیلئے مبعوث فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا، (الاعراف: ۱۵۸) آپ کہہ دیں: لوگو! بیشک میں  تم سب کیلئے اللہ کا رسول ہوں، قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف انداز اور اسلوب میں نبی ﷺ پر ایمان لانے کی تاکید کی گئی ہے جیساکہ فرمایا:

 فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنزَلْنَا، (التغابن: ۸) سو تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کے نور یعنی جو ہم نے نازل کِیا ہے اس پر ایمان لاؤ۔


فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ، (الاعراف: ۱۵۸)

الله پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمّی پر ایمان لے آؤ، جو خود الله اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں، نیز ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔


اللہ تعالی نے اپنے انبیاء سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لانے کا پختہ وعدہ لیا، اور فرمایا: وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا، 

(آل عمران: ۸۱) اور  جب اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ اگر میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کروں پھر کوئی ایسا رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرتا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی، اللہ تعالی نے (یہ حکم دے کر نبیوں سے) پوچھا ؟ "کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو؟ اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو؟ نبیوں نے جواب دیا: ہم اس کا اقرار کرتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ کے آجانے کے بعد اگر کوئی کسی بھی نبی پر ایمان رکھتا تھا تو اب ضروری ہے کہ وہ محمد عربی ﷺ پر ایمان لائے، حدیث میں ہے: عن ابي هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏انه قال:‏‏‏‏ والذي نفس محمد بيده، ‏‏‏‏‏‏لا يسمع بي احد من هذه الامة يهودي، ‏‏‏‏‏‏ولانصراني، ‏‏‏‏‏‏ثم يموت ولم يؤمن بالذي ارسلت به، ‏‏‏‏‏‏إلا كان من اصحاب النار۔

(مسلم: ۳۸۶) 

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اس امت کا کوئی بھی شخص خواہ یہودی ہو نصرانی ، میرے بارے میں سن لیتا ہے پھر مرجاتا ہے اور میری لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان نہیں لاتا تو وہ جہنمی ہے۔

اور جو نبی کریم ﷺ پر ایمان نہ لائے اس کے لیے سخت عذاب تیار کیا گیا ہے، جیساکہ فرمایا: وَمَنْ لَمْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًا، (الفتح: ۱۳) جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے، تو ہم نے کافروں کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں فرمایا: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيُؤْمِنُوا بِي وَبِمَا جِئْتُ بِهِ، (مسلم: ۱۲۶) 

مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوا اللہ کے اور ایمان لائیں مجھ پر(کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں) اور اس پر جس کو میں لے کر آیا (یعنی قرآن پر اور شریعت کے تمام احکام پر جن کو میں لایا) ۔


آپ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ کو اللہ کا بندہ مانا جائے، اس بات پر ایمان ہو کہ نبیﷺ الله کے رسول ہیں اور سید المرسلین ہیں خاتم النبیین ہیں، اور اللہ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں، صرف انسانوں کے ہی رسول نہیں بلکہ جناتوں کے بھی رسول ہیں۔


نبی کریم ﷺ پر ایمان ایسا ہو جیسا ایمان صحابہ کرام کا تھا کہ ان کے ایمان کو نمونه بنایا گیا، فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہِ فَقَدِ اہْتَدَواْ․(البقرة:۱۳۷)

 اگر تم ایمان اس طرح لا ؤ جیسا کہ ایمان صحابہ کرام لائے ہیں تو تحقیق تم فلاح پا جاؤ گے۔

ایمان کامل کی علامت یہ ہے کہ ایمان اور اعمال میں حلاوت محسوس ہو، حدیث مبارکہ میں ہے: ذاق طعم الإيمان من رضي بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا، (مسلم: ۱۵۱) ایمان کا مزہ چکھا اس نے جو راضی ہو گیا اللہ کی حکمرانی پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری پر۔


دوسرا حق 

عظمت و ادب


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت نرالی ہے، اللہ تعالی نے آپ کو جس بلند وبالا مقام پر فائز کیا اور اپنے بندوں میں جس مقبولیت ومحبوبیت سے سرفراز فرمایا اس تک کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی، آپ اولاد آدم کے سردار ہیں، آپ وہ ہیں جن  کے اخلاق عظیم کی خود رب ذوالجلال نے گواہی دی ہے۔ فرمایا: وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ،  (القلم:۴) اور بے شک آپ بڑے عمدہ اخلاق کے مالک ہیں، نیز آپ کے ذکر مبارک کو رب کریم نے رفعت وسربلندی سے ہمکنار کردیا، ارشاد ہے:  وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (الم نشرح: ۴) اور ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا نام اللہ کے نام کے ساتھ جوڑا گیا، کلمۂ شہادت میں اگر ایک طرف رب کے توحید کی شہادت ہے تو دوسری طرف آپ کی رسالت وعبدیت  کی شہادت ہے، کوئی شخص اس وقت تک دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ کی توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ آپ کی رسالت کا اقرار نہ کرے۔ اذان میں، اقامت میں، جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں، خطبۂ نکاح میں، صلاۃ جنازہ میں، غرضیکہ متعدد اہم مقامات پر آپ کا تذکرہ اور تکرار کیا جاتا ہے۔

آپ وہ ہیں کہ قرآن پاک کے اندر اللہ تعالی نے آپ کی زندگی کی قسم کھائی ہے، ارشاد ہے: لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ (الحجر: ۷۲) تیری عمر کی قسم! وہ تو اپنی بدمستی میں سرگرداں تھے۔

امام طبری نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ معزز کوئی ہستی پیدا نہیں فرمائی اور نہ میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے علاوہ کسی اور کی زندگی کی قسم کھائی ہو۔(تفسیر طبری) 

آپ وہ ہیں کہ اللہ تعالی نے پیدائش کے وقت سے ہی آپ کی برکتوں کا ظہور فرمایا۔آپ کی ماں آمنہ نے آپ کی برکتیں دیکھیں، آپ کو دودھ پلانے والی خاتون حلیمہ سعدیہ نے آپ کی برکتیں دیکھیں۔

آپ وہ ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنا خلیل بنایا تھا، صحیح مسلم کی حدیث ہے:  إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا(مسلم: ۵۳۲) بے شک اللہ تعالی نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تھا۔


آپ کو مقام محمود عطا ہوا، قرآن میں ہے: عَسٰی اَنْ یَّبْعَثَکَ  رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا، (الاسراء: ۷۹) اُمید ہے کہ آپ کے پروردگار آپ کو مقامِ محمود عطا فرمائیں گے۔

آپ کو معراج پر لے جایا گیا، آپ کو کوثر عطا کیا گیا۔

نبی کریم ﷺ کی عظمت کا تقاضا یہ ہے کہ اپ کا انتہائی ادب کیا جائے، صحابہ کو خطاب کر کے کہا گیا:


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ، (الحجرات: ۱، ۲) اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول پر پہل نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ، یقیناً اللہ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں، مسلمانو ! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کیا کرو اور نہ ان سے ایسے زور سے بات کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔

ان آیات میں رسول اللہ ﷺ کا ادب سکھایا گیا ہے کہ آپ ﷺ جب کوئی بات فرمائیں تو آپ کی پیروی اوراتباع کرو، آپ کے حکم کے مقابلہ کوئی مشورہ پیش کرنے سے بچو، نیز اگر کوئی معاملہ پیش آئے تو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے طورپر کوئی حکم لگانے اور فیصلہ کرنے سے بچو ؛ چنانچہ حضرت ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی کہ بنو تمیم کا ایک وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہورہا ہے، یہ بات زیر غور تھی کہ اس قبیلہ پر کسی کو امیر مقرر کیا جائے؟ آپ ﷺ کے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے ہی حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: اس پر قعقاع بن معبد کو امیر بنا دیا جائے، حضرت عمر﷜ ؓ نے گذارش کی کہ ان کی بجائے اقرع بن حابس کو امیر بنانا بہتر ہوگا، حضرت ابوبکرؓ نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کی اور فرمایا : تمہارا مقصد میری رائے کی مخالفت کرنا ہے ، حضرت عمرؓ نے کہا: میرا مقصود آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے ؛ چنانچہ بات تیز ہوگئی اور دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں، اسی موقع سے یہ آیت نازل ہوئی ، (بخاری ، کتاب التفسیر ، باب تفسیرسورۃ الحجرات ، حدیث نمبر : ۴۵۶۶) مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو انتظار کرنا چاہئے تھا کہ خود اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کیا فیصلہ ہوتا ہے ؟ اگر رسول اللہ ﷺ مشورہ طلب کرتے تو رائے دی جاتی، تاہم حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے جو رائے دی، وہ غلطی کے دائرہ میں نہیں آتی؛ کیوں کہ انھوں نے اخلاص کے ساتھ اُس بات کا مشورہ دیا جس کو وہ بہتر سمجھ رہے تھے، ان حضرات کا مقصد آپ ﷺ کی بات کو کاٹنا نہیں تھا، اسی طرح ان کا آپسی اختلاف کسی دنیوی غرض یا طرفداری کے پہلو سے نہیں تھا؛ بلکہ جس نے جس رائے کو مسلمانوں کے مفاد میں سمجھا، اس کے مطابق رائے پیش کی،

 یہاں جو رسول اللہ ﷺ سے آگے بڑھنے سے منع کیا گیا ہے اس کا تعلق صرف رائے دینے اور فیصلہ کرنے میں ہی آگے بڑھنا نہیں ہے؛ بلکہ یہ بھی ہے کہ چل رہے ہوں تو حضور ﷺ کے پیچھے چلیں، کھارہے ہوں تو آپ ﷺ کے کھانے کے بعد کھانا شروع کریں، سواری پر چل رہے ہوں تو آپ ﷺ کی سواری سے اپنی سواری پیچھے رکھیں، اسی میں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ یہی سلوک انسان کا اپنے بڑوں جیسے ماں باپ، اساتذہ، ذمہ دار وغیرہ کے ساتھ بھی ہونا چاہئے کہ اپنے آپ کو ان سے پیچھے رکھا جائے، ایک باپ بیٹے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، بیٹا باپ سے آگے چل رہا تھا، آپ ﷺ نے منع کیا اور بیٹے کو باپ کے پیچھے پیچھے چلنے کی ہدایت فرمائی۔ (الدرالمنثور : ۵؍۲۵۸)

یہاں ایک اور ادب بتایا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسی بلند آواز سے بات نہیں کرنی چاہئے، جیسی آپس کی گفتگو میں کی جاتی ہے؛ بلکہ ادب کے ساتھ پست آواز میں بات کرنی چاہئے ، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمرؓ جن کی آواز فطری طورپر بلند تھی اتنا آہستہ گفتگو کرنے لگے کہ حضور ﷺ کو ان سے دوبارہ دریافت کرنا پڑتا تھا، ( تفسیر قرطبی : ۱۶؍۳۰۸) البتہ اگر رسول اللہ ﷺ کی راحت اور آپ کو تکلیف سے بچانے کے لئے کوئی شخص بلند آواز میں بات کرے تو یہ صورت اس سے مستثنیٰ ہے، جیساکہ غزوۂ حنین کے موقع سے حضرت عباسؓ نے لوگوں کو بلند آواز میں واپس آنے کو کہا، اہل علم نے لکھا ہے کہ جیسے زندگی میں آپ ﷺ کا احترام واجب تھا اورآپ ﷺ کے سامنے زور سے کہنے کی اجازت نہیں تھی، اسی طرح آپ ﷺ کے بعد بھی آپ ﷺ کے روضۂ اطہر پر اونچی آواز میں گفتگو وغیرہ نہ کی جائے، اسی طرح جیسے آپ کی گفتگو سنتے ہوئے آپ ﷺ کی آواز سے بلند آواز میں جواب دینے کی ممانعت تھی، آپ ﷺ کے بعد اگر آپ ﷺ کے ارشادات سنائے جائیں تو توجہ سے سننا اور بلند آواز میں گفتگو کرنے سے بچنا چاہئے۔ (احکام القرآن لابن العربی : ۴؍۱۷۰۳) 

ارشاد باری ہے: لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا،(النور: ۶۳) 

(اے مسلمانو) تم رسول کو اپنے درمیان اس طریقہ پر نہ بلایا کرو جیسے ایک دوسرے کو بلایا کرتے ہو،

یہاں ایک اور حکم یہ دیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کو پکارنے کا انداز وہ نہ ہونا چاہئے، جو دوسروں کو پکارنے کا ہے، جیسے: اے محمد ! کہنا، یا دور سے اور زور سے پکارنا ؛ بلکہ ادب یہ ہے کہ احترام اور تعظیم کے کلمہ کے ساتھ ہلکی آواز میں اور قریب آکر متوجہ کیا جائے، صحابہ کے لئے تو یہ حکم تھا ہی، اور ابھی بھی اُمت کے لئے یہ حکم ہے کہ روضۂ اطہر اِن آداب کا لحاظ رکھا جائے، اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا تو خصوصی ادب واجب تھا ہی؛ لیکن چھوٹا اپنے ہر بڑے کے ساتھ اس ادب کا لحاظ رکھے؛ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ باپ کو نام لے کر پکارنا، یا شوہر کو نام لے کر پکارنا مکروہ ہے، (ردالمحتار: ۹؍۵۹۹) یہی سلوک اپنے استاذ ، اپنے شیخ ، اپنی تنظیم ، جماعت یا ادارہ کے ذمہ دار اور اپنے آفس کے سربراہ اعلیٰ کے ساتھ بھی ہونا چاہئے۔


آپ کی عظمت جس کے دل کے اندر نہ ہو اور آپ کو تکلیف پہنچائے تو اس کا وبال بہت سخت ہے، ارشاد باری ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا، (الاحزاب: ۵۸) 

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں ، ان پر دنیا میں بھی اللہ کی پھٹکار ہے اور آخرت میں بھی ، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے رُسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت کرنے والے کو اللہ تعالی  ذلیل  کر دیتا ہے، اللہ تعالی  کا فرمان ہے: إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ فِي الْأَذَلِّينَ، (المجادلہ: ۲۰) جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یقینا یہی لوگ ذلیل ترین ہیں۔


آپ کی تعظیم و توقیر اور ادب دین کی بنیاد اور آپ کی بعثت کا مقصد ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:  لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، (الفتح: ۹) تا  کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کی مدد  و توقیر کرو، پھر صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرو۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح ترین قدر اور ادب آپ کے صحابہ کرام نے کی، چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم ! میں بادشاہوں، قیصر و کسری، اور نجاشی کے دربار  میں بھی گیا ہوں! اللہ کی قسم !کسی بادشاہ کو اتنی تعظیم  اور توقیر نہیں ملتی جتنی محمد کے ساتھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے ہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تھوکتے تو    وہ کسی صحابی کے ہاتھ پر گرتا، اور وہ اسے اپنے چہرے سمیت پورے جسم پر مل لیتا، اور جب  نبی  صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کسی کام کا حکم دیتے تو لپک کر اس کی تعمیل کرتے، جس وقت آپ وضو کرتے تو  وضو کا گرتا ہوا پانی   پانے کیلئے چھینا جھپٹی کرتے، جس وقت آپ گفتگو  کرتے تو سب اپنی آوازیں دھیمی کر لیتے، اور آپکی تعظیم کرتے ہوئے کوئی بھی آنکھ بھر کر آپکو نہ دیکھتا تھا، (بخاری)۔


تیسرا حق محبت


امت پر نبی کریمﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ آپﷺ  کے ساتھ یوں محبت کی جائے کہ والد، بیٹے اور تمام لوگوں کی محبت سے بڑھ کر ہو، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، (بخاری: ۱۵) تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اس کے بیٹے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔


محبت کی کسوٹی کو اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے: قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ، (التوبہ: ۲۴) 

ترجمہ: (اے رسول !) آپ کہہ دیجئے، اگر تمہارے باپ دادا، تمہاری اولاد، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، مال و اسباب جن کو تم نے حاصل کیا ہے، (تمہاری) تجارت جس کے بیٹھ جانے کا تمہیں ڈر لگارہتا ہے اور وہ رہائش گاہیں جنھیں تم پسند کرتے ہو، اگر تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ جاری کردیں، اور اللہ نافرمانی کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتے۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ کی اور اس کے رسول کی محبت ان تعلقات اور دنیا کے مال و متاع کی محبت پر غالب ہونی چاہئے۔


اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے:قال له عمر : يا رسول الله ، لانت احب إلي من كل شيء إلا من نفسي ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا والذي نفسي بيده، حتى اكون احب إليك من نفسك، فقال له عمر: فإنه الآن والله لانت احب إلي من نفسي ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم :الآن يا عمر، (بخاری: ۶۶۳۲) حضرت عمر بن خطاب﷜ نے نبی کریمﷺ سے کہا کہ اے اللہ کے پیغمبرﷺ! آپ مجھے ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں سوائے میری جان کے ۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: نہیں، اللہ کی قسم! (اس وقت تک بات نہیں بن سکتی) جب تک میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، تو حضرت عمرؓ ﷜کہنے لگے: تواب ایسے ہی ہے، اللہ کی قسم! آپ مجھے میری جان سے بھی پیارے ہیں، تو نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: عمر! اب بات بنی ہے ۔


اس سچی محبت کا یہ عظیم ثواب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے اور اس کی ترغیب دلانا اور اس کی انتہاء تک پہنچنے کا شوق بیدار کرنا بھی ضروری ہے، ایک حدیث میں آتا ہے:جاء رجل إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقال : يا رسولَ اللهِ ! متى الساعةُ ؟ قال " وما أعددتَ للساعةِ ؟ قال : حُبَّ اللهِ ورسولِه قال: فإنك مع من أحبَبتَ، قال أنسٌ : فما فرِحنا بعد الإسلامِ فرحًا أشدَّ من قولِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فإنك مع من أحبَبْتَ، (مسلم: ۲۶۳۹)

ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسولﷺ! قیامت کب آئے گی؟ آپ ﷺ نے کہا کہ تو نے اس کیلئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے اس کیلئے بہت زیادہ نماز، روزے اور صدقے کے ساتھ تیاری نہیں کی لیکن میں اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ محبت کرتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آدمی اْسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ محبت کرے، حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہمیں اسلام لانے کے بعد کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی آپ کے یہ کہنے پر ہوئی کہ جنت میں تم اس کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے شدید ترین محبت آپ کے صحابہ نے کی، چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں تھا، میری نگاہوں میں آپ سے بڑھ کر کسی کی اتنی قدر نہیں تھی، آپ کے مقام و مرتبے کا یہ عالم تھا کہ میرے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو آنکھ بھر کر دیکھنے کی سکت  نہیں تھی، اگر مجھے آپ کا حلیہ بیان کرنے کا کہا جائے تو میرے لئے یہ نا قابل بیان ہے؛ کیونکہ میں نے کبھی آپ کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا۔ (مسلم) 


آنحضرت ﷺ کی محبت ہی معیارِ صداقت و شرافت ہے، امام مالک ؒ کے بارے میں ہے کہ ان سے حضرت ایوب سختیانی ؒ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا: میں جب کسی سے بھی آپ حضرات کے لئے حدیث نقل کرتا ہوں، ان میں سے ایوب ہی سب سے زیادہ بااعتماد ہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ایوب سختیانی ؒ کو امام مالک ؒ نے یہ اہمیت کیوں دی؟ آیئے، اس کا جواب امام مالک ؒ سے سنیں، فرماتے ہیں: انہوں نے حج کیا تو میں انہیں دیکھتا رہتا تھا، مگر ان سے احادیث سنتا نہ تھا، ہاں جب ان کے سامنے حضورﷺ کا تذکرہ ہوتا تو وہ اتنا زیادہ روتے کہ مجھے ان پر رحم آجاتا تھا، جب میں نے ان کی یہ حالت دیکھی اور نبی پاک ﷺ کی یہ تعظیم و احترام ملاحظہ کیا تو میں نے ان کی مرویات تحریر کرلیں،(سیر اعلام النبلاء)۔ اب خود امام مالکؒ کی آنحضرت ﷺسے محبت کا حال سنیے: مصعب بن عبداللہ کہتے ہیں: مالک جب نبی اکرمﷺ کا تذکرہ کرتے تو جھک جاتے اور ان کا رنگ اس قدر متغیر ہو جاتا کہ ان کے ہم نشینوں پر ان کی یہ حالت دیکھنا گراں گزرتا، ایک بار ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: اگر آپ لوگ وہ کچھ دیکھ لیتے جو میں دیکھتا ہوں تو میری حالت پر آپ حضرات کو ہرگز تشویش نہ ہوتی۔

ایمان والوں کی صفات بتاتے ہوئے قرآن مجید گویا ہے:النَّبِيُّ أَوْلَى بِالمُؤمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ (الاحزاب: ۶) 

نبی کی ذات مومنوں کے لیے اپنی جاں سے بھی مقدَّم ہے۔


چوتھا حق اطاعت


نبیﷺ کے حقوق میں سب سے اہم ترین حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت کی جائے کیونکہ یہ آپ ﷺ پر ایمان اور آپﷺ کی تصدیق کا لازمی تقاضا ہے، الله تعالیٰ نے آپﷺ کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا کہ:  اے ایمان والوں اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور سن سنا کر اس سے نہ پھرو اور ان جیسے نہ ہونا جنہوں نے کہا ہم نے سنا اور وہ نہیں سنتے۔‘‘ (الانفال: ۲۰، ۲۱)


ایک اور جگہ کہا گیا:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ، (الاحزاب: ۲۱) بے شک رسول اللہ تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔

اللہ نے یہ بھی فرمایا: مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ وَمَن تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظاً ( النساء: ۸۰) جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا اور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے تمہیں ان کے بچانے کو نہ بھیجا۔

اور فرمایا: وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ اِنَّ اللَّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(الحشر: ۷)اور کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان  اتباعِ نبوی سے ہی ممکن ہے، اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کا حکم قرآن مجید میں تیس سے زائد بار دیا ہے، اور اطاعتِ نبوی کا اطاعت الہی کے ساتھ اور مخالفتِ نبوی کو مخالفتِ الہی  سے ملا کر ذکر فرمایا،  اور کامیابی  آپکی اطاعت میں ہی پنہاں ہے: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا(الاحزاب: ۷۱) اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرےگا تو وہ عظیم کامیابی پائے گا۔

اطاعتِ نبوی میں ہی انسانی زندگی کی کامیابی اور خوشحالی پنہاں ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ(الانفال: ۲۴) اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جبکہ رسول تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لیے زندگی  بخش ہو۔

آپ کی مخالفت کی وجہ سے آزمائشیں آئیں گی، اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(النور:۶۳) جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں یا انھیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے۔

آپ کی سنت سے بے رغبتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اعلان براءت ہے، آپ کا فرمان ہے: جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں۔ متفق علیہ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کا یہ  حق ہے کہ اللہ کی عبادت آپ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق کی جائے، من مانے اور خود ساختہ طریقے سے عبادت نہ کی جائے۔


ایک حدیث میں ہے: عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قال: كل امتي يدخلون الجنة إلا من ابى، قالوا: يا رسول الله ، ومن يابى ؟قال: من اطاعني دخل الجنة، ومن عصاني فقد ابى، (بخاری: ۷۲۸۰) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا : جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔


اس اطاعت و فرمانبرداری سے اللہ رب العزت جو فوائد اور ثمرات عطا کرتا ہے وہ بیان سے باہر ہیں اور شمار میں نہیں آسکتے:  ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہی فرمانبرداری صراط مستقیم پر گامزن کرتی اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرتی ہے، آپﷺ کی فرمانبرداری سے آدمی پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے: أَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ،(آل عمران: ۱۳۲)  الله اور رسول کا حکم مان لو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔

اسی طرح آپﷺ کی فرمانبرداری کے بدلے میں اللہ رب العزت ان لوگوں کے ساتھ جنت کا داخلہ نصیب کرتا ہے جن پر انعام کیا گیا ہے جن میں سب سے پہلے انبیاء ہیں پھر دوسرے درجے پر وہ صِدِّیق ہیں جو صدق میں اور الله کے دین، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کی تصدیق میں درجۂ انتہا پر فائز ہیں اور انبیاء کے پیروکاروں میں سے افضل ترین لوگ ہیں، اس کے بعد شہداء کا درجہ ہے اور پھر وہ مومن جن کا ظاہر اور باطن پاک ہے: اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں (النساء: ۶۹)

یہی وجہ ہے کہ جہنم کی آگ میں جب کفار کے چہرے جھلسیں گے اور انہیں عذاب دیا جا رہا ہو گا تو وہ اس حسرت کا اظہار کریں گے کہ کاش! انہوں نے اللہ اور اس کے پیغمبرﷺ کی فرمانبرداری کی ہوتی، اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق یوں خبر دی ہے کہ: یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوہُہُمْ فِیْ النَّارِ یَقُولُونَ یَا لَیْتَنَا أَطَعْنَا اللَّہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا،(الاحزاب: ۶۶) جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اْس وقت وہ کہیں گے کہ کاش! ہم نے الله اور رسولﷺ کی اطاعت کی ہوتی۔

چنانچہ وہ آپ ﷺکی فرمانبرداری کی تمنا کریں گے لیکن ایسے وقت میں کہ جب اس تمنا کا کوئی فائدہ نہ ہو گا اور وقت گزر چکا ہو گا۔

آپﷺ کی فرمانبرداری کا سب سے بڑا فائدہ اور سب سے میٹھا پھل یہ ہے کہ آپﷺ کے فرمانبرداروں کو اللہ کی محبت ملتی ہے اور ان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں: 

قُلْ اِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ  لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ، (آل عمران: ۳۱) اے نبیﷺ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔

اس لئے اس پھل کی حفاظت کا اور اس عمدہ و بہترین بدلے سے ہمیشہ بہرہ مند رہنے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہر اس چیز سے بچا جائے جو اس کے برعکس ہو یا جس سے اس میں کمی واقع ہو، مثلاً آپﷺ کے فرمان کی مخالفت، آپ ﷺ کے دین میں بدعت سازی کرنا یا آپ ﷺ کی سنت کو بدلنا، یا سنتوں پر عامل نہ ہونا۔


آپﷺ کی اطاعت کی حقیقت یہ ہے کہ آپﷺ کی رہنمائی میں چلا جائے، آپ کی پیروی کی جائے، آپ ﷺ کے طریقے کو اپنایا جائے، آپﷺ کی سنت پر عمل کیا جائے اور اسے لوگوں کے خیالات اور خوش فہمیوں پر مقدم رکھا جائے، تمام امور کا فیصلہ آپﷺ سے کروایا جائے اور آپﷺ کے فیصلے پر پوری رضا مندی اپنائی جائے، اللہ تعالیٰ نے ایمان کی درستی کیلئے شرط مقرر کی ہے کہ آپ ﷺ کے حضور سر تسلیم خم کیا جائے، آپ ﷺ کے فیصلے کو خوشدلی اور رضا مندی سے مانا جائے، آپﷺ کے فیصلے پر کوئی حرفِ اعتراض نہ اٹھایاجائے اور نہ ہی اس میں کسی شک یا تردد کا اظہار کیا جائے: فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَینَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِی أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً، (النساء: ۶۵) نہیں، اے محمدﷺ! تمہارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔


پانچواں حق آپ پر درود پڑھنا


رسول اللہﷺ کی خدمت میں درود کا نذرانہ پیش کرنا بھی مومنین کے لیے سعادت مندی کی بات اور آپﷺ کا حق ہے، قرآن مجید میں ہے:) إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا، (الاحزاب: ۵۶) بے شک اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اُن پر درود و سلام بھیجا کرو۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ زندگی بھر میں کم از کم ایک مرتبہ صلوٰۃ و سلام بھیجنا فرض ہوگا اور بار بار پڑھنا مستحب ہے۔


ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا، (مسلم : ۴۰۸) 

جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

 ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی الله عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ  (صحیح الجامع : ۶۳۵۹) 

’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔

درود شریف کثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجات ملتی ہے، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ جتنا چاہو۔ میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَجتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَجتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ایک روایت ہے میں ہے :إِذَنْ یَکْفِیْکَ الله ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ تب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔(ترمذی : ۲۴۵۷‍) 

روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب وہی ہو گا جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا تھا ۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً)

قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘

(رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہم)۔


یہ چند بنیادی حقوق ہیں نبی کریم ﷺ کے جن کو ادا کرنا ہر مسلمان کی ذمه داری ہے، اس کے علاوہ بھی اور بہت سے حقوق ہیں جن کو معلوم کرکے ادا کرنا چاہيے، چند حقوق یہ ہیں: 

آپﷺ کے لائے ہوئے دین کی نصرت اور مدد۔

اپ ﷺ کا دفاع۔

آپ ﷺ کے دوستوں سے دوستی رکھنا اور دشمنوں سے دشمنی رکھنا۔

آپ ﷺ کے صحابہ کا ادب و احترام کرنا۔

اہل بیت، ازواج مطہرات، خلفائے راشدین کی عظمت۔

اللہ رب العزت نبی کریم ﷺ کے حقوق صحیح طرح سے ادا کرنے 

کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العلمین۔

ہمارے یوٹیوب چینل کو ضرور سبسکرائب کریں

https://youtube.com/c/IslamicKnowledgeTV

تبصرے

Reed more posts

نوجوان نسل کی بے راہ روی اور غیر ازدواجی تعلقات

جھوٹ معاشرہ کو تباہ و بربادکرتا ہے

جہیز کی لعنت کا خاتمہ ضروری ہے

: اول جیش من امتی

اولاد پر والدین کے حقوق اور ہمارے نوجوان

زنا: ایک سماجی ناسور

حلال روزی کما نافرض ہے

اسلام میں لَو یعنی پیار و محبت کرنا کیسا ہے..

طلاق کے علاوہ کن چیزوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

📘 دستورِ ہند؛ ایک معروضی مطالعہ 🇳🇪