شراب اور جوا : نا پاک شیطانی کا
شراب اور جوا : نا پاک شیطانی کام
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الكريم اما بعد قال الله تعالى في القرآن المجيد. اعوذ بالله من الشيطان الرجيم . يايها الذين آمنوا إنما الخمر والميسر والانصاب والازلام رجـس مـن عـمل الشيطان فاجتنبوه لعلكم تفلحونه إنما يريد الشيطان أن يوقع بينكم العداوة والبغضاء في الخمر والميسر ويصدكم عن ذكر الله وعن الصلوة فهل أنتم منتهون. (المائدہ:۹۱-۹۰)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ، ان سے پر ہیز کرو ، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی ۔شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے بازر ہو گے ۔
اللہ تبارک و تعالی نے خمر اور میسر یعنی شراب اور جوا کو نا پاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے ۔ خمر کے معنی ڈھانکنے کے ہیں ۔ شراب انسان کی عقل و شعور کو ڈھانپ لیتی ہے ۔اس لیے اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے، صرف شراب ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز جونشہ آور ہوشریعت میں حرام ہے ۔ مثلا تاڑی ، یعنی کچی شراب ، الکحل، اور نشہ آور گولیاں وغیرہ ان سب کا استعمال ممنوع ہے ،رسول پاک ﷺ کا ارشاد ہے: کل مسكر حرام.. ہرنشہ آور چیز حرام ہے۔ عرب کے لوگ جن اخلاقی خرابیوں میں مبتلا تھے ان میں ایک بری عادت شراب نوشی تھی ۔ شراب کے بغیر ان کو چین نہ آ تا تھا جیسے کہ شراب ان کی کھٹی میں پڑی ہوئی ہو، شراب نوشی کے ساتھ لڑائی جھگڑے ، گالم گلوج ، بے حیائی اور بدکاری بھی جڑی ہوئی تھی اور یہ نشہ آور چیزوں کے ساتھ آج بھی لگی ہوئی ہے، اس لیے شراب کو ام الخبائث یعنی گناہوں کی جڑ کہا گیا ہے۔
اسلام نے رفتہ رفتہ شراب نوشی کی لعنت کو ختم کر دیا اور نو مسلم معاشرہ کی عقل و ضمیر کو پاکیزہ بنا دیا۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ شراب تین مرتبہ میں حرام کی گئی، جب رسول اللہﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگ شراب پیتے تھے اور جوا کی آمدنی کھاتے تھے ، لوگوں نے حضور پاک سے شراب اور جوا کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی يسئلونك عن الخمر والميسر قل فيهما إثم كبير ومنافع للناس وإثمهما أكبر من نفعهما (البقره -۲۱۹) پوچھتے ہیں : شراب اور جوے کا کیا حکم ہے؟ کہو : ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے ۔ اگر چیدان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے ۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے کہا کہ شراب اور جوا کو حرام نہیں کیا گیا ہے بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ ان میں گناہ بھی ہے اور فائدہ بھی ہے ۔ چنانچہ لوگ اب بھی شراب پیتے رہے ، یہاں تک کہ ایک دن ایسا ہوا کہ ایک صحابی مغرب کی نماز پڑھار ہے تھے اور وہ شراب پیے ہوئے تھے اس لیے ان کی قراءت گڑ بڑ ہوگئی ، تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی : يايها الذين آمنوا لاتقربوا الصلوة وانتم سكاری حتی تعلموا ما تقولون (النساء-۴۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشہ کی حالت میں ہوتو نماز کے قریب نہ جاؤ۔ نماز اس وقت پڑھنی چا ہیے جب تم جانو کہ کیاکہ رہے ہو۔ چنانچہ لوگ اب بھی شراب پیتے رہے ، البتہ نماز کے وقت نہ پیتے بعض لوگ نماز میں اس حالت میں آتے کہ ان پرنشہ کا اثر ہوتا تو اللہ تبارک وتعالی نے شراب کو مکمل حرام کر تے ہوئے بیآ بہت نازل کی ۔اے ایمان والو شراب جوا، پانسہ اور بتوں کے نام کا تیر ناپاک اور شیطانی اعمال ہیں تم ان سے پر ہیز کرو ۔ تو لوگوں نے اعلان کیا کہ ہم شراب نوشی سے باز آئے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے ایک دم شراب نوشی چھوڑ دی ، شراب نالیوں اور گڑھوں میں بہادی گئی، یہاں تک کہ شراب کے مٹکے ، پیالے اور جام و سبو سب تو ڑ ڈالے گئے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری کا وہ تاریخی مظاہرہ ہوا کہ اس کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی ۔ نافع بن کیسان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ان کے والد شراب کی تجارت کرتے تھے ۔ایک مرتبہ وہ ملک شام سے بہترین شراب تجارت کے لیے لے کر آئے اور رسول اللہ ﷺ کو ایک اچھی شراب یہ کہہ کر پیش کی کہ یہ پاکیزہ شراب ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا اے کیسان اللہ نے شراب حرام کر دی ہے ، تو انھوں نے پوچھا پھر میں اسے نہ دوں؟ تو آپ نے فرمایا اس کی قیمت بھی حرام ہے تو حضرت کیسان نے شراب کے مٹکے بہادیے ۔
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف الخلوق بنایا ہے اور اسے ہوش ،عقل ، شعور ،تمیز ، بصیرت اور قوت فیصلہ جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا ہے، یہ اس کے اشرف الخلوق ہونے کی علامت ہے اور اسی عقل و شعور کی دولت کی بنا پر اللہ تعالی نے اسے اسلامی احکام کا مکلف بنایا ہے ورنہ پاگل اور دیوانے پر شریعت کوئی حکم لاگو نہیں کرتی ، کیونکہ اس کے پاس عقل ہی نہیں ہے ، جب انسان شراب نوشی کرتا ہے اور نشہ آور چیز یں استعمال کرتا ہے تو اس کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں رہتے عقل ماؤف ہو جاتی ہے اور وہ اللہ کی عطا کر دہ عظیم نعمت کو اپنی گندی حرکت سے ذلیل اور پست کر دیتا ہے۔ پھر شیطان اس نشہ خوری کے ذریعہ لوگوں کو باہم لڑا تا ہے ، گالم گلوچ کرنا ایک دوسرے کی عزت و آبرو سے کھیلنا، بلکہ ایک دوسرے پر حملہ کرنا ، بلکہ قتل تک کی واردات بھی شراب نوشی کی وجہ سے صادر ہوتی ہے ، اس لیے اللہ تعالی نے انسان کی عزت و شرافت کو محفوظ کرنے اور انسانی عقل و شعور کو بیدار رکھنے کے لیے نشہ آور چیزوں کے استعمال پر پابندی لگائی ہے، نبی ﷺ کا ارشاد ہے:من شرب الخمر في الدنيا لم يشربها في الآخرة الا ان يتوب
جو شخص دنیا میں شراب پیے گا وہ آخرت میں شراب طہور سے محروم رہے گا ، الا یہ کہ وہ تو بہ کر لے۔ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ شراب اگر اتنی مقدار میں پی جائے کہ عقل و ہوش ختم ہو جائے تو حرام ہے لیکن اگر تھوڑی مقدار میں پی جائے جس سے سرور آئے نشہ نہ آئے اور شرابی عقل و ہوش میں رہے تو کیا حرج ہے؟ اس سلسلہ میں اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے شراب کو صرف حرام نہیں کیا ہے بلکہ اسے نا پاک بھی قرار دیا ہے یعنی شراب کم ہو یا زیادہ ہر صورت میں نا پاک ہے اور ہر حالت میں حرام ہے ۔ اسی لیے فقہاء اسلام نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ ما كثيره حرام فقليله حرام “ جس کی ز یادہ مقدار حرام ہے اس کی کم مقدار بھی حرام ہے ۔ اس کی مثال پیشاب جیسی ہے ، اس کا زیادہ پینا یا کم پینا ہر حالت میں حرام ہے اسی طرح شراب بھی ہے ۔ بعض لوگ شراب کے طبی اور جسمانی فائدے بھی بتاتے ہیں اور کہتے ہیں که قرآن میں بھی تو اس سے نفع کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ایسا سمجھنا غلط ہے کیونکہ قرآن نے شراب اور جوا کے طبی فوائد نہیں بتائے بلکہ اس رواج کی طرف اشارہ کیا ہے جو عربوں میں رائج تھا کہ عرب شراب نوشی اور جوا کی محفل لگاتے اور ہار جیت اونٹوں پر ہوتی ، جیتنے والا اونٹوں کو ذبح کرتا اور ان کا گوشت، کباب وغیرہ سے لطف اندوز ہوتا ، جوا اور شراب و کباب کی محفلیں جس جگہ منعقد ہوتیں وہاں غریب ،مسکین اور محتاج لوگ بھی جمع ہو جاتے اور جوے باز کچھ گوشت خود استعمال کرتے اور باقی تماشہ بین محتاجوں کو بانٹ دیتے ۔ شراب اور جوا کی مجلسوں سے غریبوں کو جو فائدہ ہوتا تھا قر آن نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ، مگر اس کو بھی بالآ خر اسلام نے ختم کر دیا ، کیونکہ نیکی کو گناہ کے ساتھ نہیں ملا یا جا سکتا ۔
جواہر وہ کھیل ہے جس میں ہار جیت کی بازی لگتی ہو جیسے شطرنج ، چوسر ، تاش ، مرغ بازی ، کبوتر بازی، پتنگ بازی، لاٹری وغیرہ ساری چیز یں جن میں پیسہ کمایا اور گنوایا جا تا ہو سب جوا کی شکلیں ہیں اور اسلام نے ان کو حرام قرار دیا ہے ۔ اللہ نے انسانوں کو حلال رزق کھانے کا حکم دیا ہے جس میں انسان اپنی عقل ،صلاحیت اور محنت سے پیسہ حاصل کرتا ہے، اس میں انسان کی صحت ، بچوں کا مستقبل اور خاندان کی عزت سب برقرار رہتی ہے ، اس کے برخلاف انسان جب جوا کھیلتا ہے تو دو ہرے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، جب وہ اپنی دولت جوے میں ہارتا ہے تو اپنی آمدنی کوحرام کام کے لیے استعمال کر نے کا گنہگار ہوتا ہے اور جب جوے میں وہ مال جیت کر آ تا ہے تو حرام ذریعہ سے مال کمانے کا مرتکب ہوتا ہے، یعنی ہر حالت میں وہ گنہگار ہوتا ہے ۔
موجودہ زمانے میں جوے کی نئی نئی شکلیں نکل گئی ہیں ، لاٹری کے علاوہ تجارت میں بھی جوے بازی کے راستے کھل گئے ہیں ، بڑے بڑے ہوٹلوں میں جوے کے مراکز بن گئے جن کو کسینو اور دوسرے خوبصورت نام دیے گئے ہیں ۔ ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جوے کی پرانی اور نئی تمام شکلوں سے پر ہیز کرے اور اپنے آپ کو حرام کمائی سے محفوظ رکھے، کیونکہ اللہ تعالی نے جس طرح شراب کو نا پاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے اسی طرح جوا کو بھی نا پاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے ، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو جوا کی اتنی سنگین مثال دی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا جو شخص جوا کھیلتا ہے پھر وہ اٹھتا ہے اور نماز پڑھتا ہے وہ ایسا ہے جیسے ایک شخص پیپ اور خنزیر کے خون سے ہاتھ اور منھ دھوتا ہے اور نماز پڑھنے لگتا ہے ۔۔۔
شراب اور جوا کی لعنت سے اپنے معاشرہ کومحفوظ رکھنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ وقتا فوقتا عوامی بیداری کے پروگرام کر یں اور ائے عامہ کو ہموار کرنے کی مہم چلائیں ۔اپنے معاشرہ کونشہ خوری اور حرام خوری سے بچانا بہت بڑی نیکی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو شراب اور جوا کی لعنت سے بچائے ۔(آمین)
https://youtube.com/c/IslamicKnowledgeTV
سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں