نکاح کا سنت طریقہ

  نکاح کا سنت طریقہ  

الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الكريم اما بعد قال الله تعالى في القرآن المجيد. اعوذ بالله من الشيطان الرجيم . ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم أزواجا لتسكنوا إليها وجعل بينكم مودة ورحمة إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون. (الروم-۲۱)

اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تا کہ تم اس کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں۔ نکاح مردوعورت کے تعلق کی قانونی ، اخلاقی اور دینی شکل ہے ۔ 

اللہ تعالی نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے ، انسانوں کو بھی مرد وعورت کی شکل میں جوڑا بنایا ہے، بغیر نکاح کے اگر مردعورت ایک ساتھ رہیں تو لوگ ان کو آوارہ اور بدکار سمجھتے ہیں ، مذہب ان کو گنہگار کہتا ہے اور سماج میں ان کوگری نگاہ سے دیکھا جا تا ہے ،لیکن جب دونوں نکاح کے ذریعہ ایک ساتھ رہنے کا اعلان کرتے ہیں تو ان کو نیکو کار سمجھا جا تا ہے ، ان کو مبارکباد دی جاتی ہے اور ان کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں، ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ بغیر نکاح کے مرد وعورت کا باہم جنسی تسکین پا نا بے حیائی اور مجرمانہ عمل ہے اور اللہ کے قانون سے بغاوت ہے، جب کہ نکاح کے بعد جنسی آسودگی حاصل کرنا ، ذمہ داری نیکی اور عبادت ہے کیونکہ یہ دونوں اللہ کے قانون کے مطابق رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ہیں ۔ 

معلوم یہ ہوا کہ جس چیز میں اللہ کا نام اور اس کے رسول کی سنت شامل ہواس میں رحمت و برکت ہے اور جس چیز سے اللہ اور اس کے رسول کا حکم خارج کر دیا گیا ہو اس میں زحمت اور لعنت ہے ، نکاح ایسی عبادت ہے جسے تمام رسولوں نے انجام دیا ہے 

چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ولقد ارسلنا رسلا من قبلك وجعلنا لهم أزواجا وذرية (الرعد - ۳۸)

تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ان کو ہم نےبیوی بچوں والا ہی بنایا تھا۔

حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:اربع من سنن المرسلين الحياء والتعطر والسواك والنكاح۔ چار چیز میں رسولوں کی سنت ہیں : حیاخوشبو مسواک اور نکاح ۔ 

آخری رسول محمد ﷺ نے بھی نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔ النكاح من سنتى نکاح میری سنت ہے۔ 

رسول پاک ﷺ نے مسلم نوجوانوں کو پاکدامنی اور پاکبازی کی تعلیم دیتے ہوۓ نکاح کرنے اور پاکیزہ زندگی گذارنے کی تلقین فرمائی ہے ۔ 

يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فـانـه اغـض لـلـبـصـر واحصن للفرج ومن لم يستطع منكم فعليه بالصوم فان له وجاء:  اے نو جوانو کی جماعت تم میں سے جو شخص استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کر لے اس لیے کہ یہ نگاہ کی پاکیزگی اور شرم گاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور جس شخص کے پاس شادی کرنے کی استطاعت نہ ہواسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھے، یہ اس کی شہوت کا تو ڑ ہوگا۔ 

عزت و ناموس اور پاک دامنی کی حفاظت کا بہترین ذریعہ نکاح ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ جب اولا د بالغ ہو جائے تو مناسب رشتہ تلاش کر کے اس کا نکاح کر دیں۔ نکاح کے لیے جوڑے کا انتخاب مختلف چیزوں کو دیکھ کر کیا جا تا ہے ، لڑکی کا انتخاب اس کے حسن و جمال ، مال و دولت ، خاندان وغیرہ کو دیکھ کر کیا جا تا ہے، رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ لڑکی کے انتخاب میں دینداری کوترجیح دیں، 

آپ ﷺﷺ نے فرمایا : تنكح المراة لاربع لما لها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدین تربت یداک. ! عورتوں سے نکاح چار اسباب سے کیا جا تا ہے ، اس کے مال و دولت کی وجہ سے ، اس کے حسب ونسب اور خاندان کی وجہ سے، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کی دین داری کی وجہ سے ،تو تم دیندار عورت سے نکاح کرو ۔ حضور پاک ﷺ کا یہ حکم ہر علاقہ اور ہر زمانہ کے لیے رہنما ہے ، اس کی حکمت اس وقت زیادہ سمجھ میں آتی ہے جب کوئی نوجوان کسی لڑکی کے حسن پر فریفتہ ہوکر ، اس کی مالداری ،نوکری یا اس کے باپ کا عہدہ واقتدار دیکھ کر شادی کرتا ہے، پھر وہ لڑ کی اس کے لیے اور اس کے گھر والوں کے لیے زحمت اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔ گھریلوسکون غارت ہو جا تا ہے ، نو بت تفریق اور مقدمہ بازی تک پہونچ جاتی ہے، اس کے مقابلہ میں جب کوئی دیندار ، اور سیرت و کردار کی لڑکی سے رشتہ کرتا ہے تو اس کی ازدواجی زندگی خوش گوار ہو جاتی ہے اور خاندان کی عزت اور نیک نامی میں اضافہ ہوتا ہے۔


رسول پاک ﷺ نے بیٹی والوں کو بھی یہ حکم دیا ہے کہ اپنی دختر کا رشتہ ایسےنوجوان سے کریں جن میں دین داری ہو، سیرت و کردار اور اخلاقی محاسن ہوں محض مال و دولت ، آمدنی اور عہدہ اقتدار کو دیکھ کر رشتہ نہ کریں ورنہ بیٹی کی زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔

رسول پاک نے فرمایا:اذا جـاء كـم مـن تـرضـون دينه وخلقه فانكحوه الا تفعلوا تكن فتنة في الارض وفساد. . جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام لے کر آئے جس کی دینداری اور اخلاقی حالت سے تم مطمئن ہو تو تم اس کی شادی کر دو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ رونما ہوگا اور فساد بر پا ہوگا۔ ایک شخص حضرت امام حسین کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میری بیٹی سے رشتہ کا پیغام متعددلوگوں نے بھیجا ہے ، میں کس سے اپنی بیٹی کا نکاح کروں؟ حضرت حسن نے ارشادفرمایا تم اپنی بیٹی کا نکاح ایسے شخص سے کرو جو اللہ سے ڈرتا ہے، کیونکہ اگر وہ اس سے محبت کرے گا تو اس کی عزت و توقیر کرے گا ، اور اگر کبھی اس سے ناراض ہوگا تو اس پر زیادتی نہیں کرے گا۔

صحابی رسول حضرت ابو درداء جس زمانہ میں شام میں تھے اس وقت ملک شام کے گورنر امیر معاویہ تھے، امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کے رشتہ کا پیغام حضرت ابو درداء کی بیٹی کی لیے بھیجا ،مگر حضرت ابو درداء نے اس رشتہ کو نامنظور کر دیا۔ حضرت ابو درداءاپنی بیٹی کا رشتہ گورنر کے بیٹے سے کرنے کے بجائے عام دیندار مسلمان سے کرنا پسند کرتے تھے، چنانچہ انھوں نے فرمایا: ’’تمہارا کیا خیال ہے ، جب ہر وقت درداء کی خدمت میں غلاموں اور لونڈیوں کی جماعت اس کا ہر حکم بجالانے کے لیے موجود ہوتی اور وہ خود کو ایسے شاندار محلوں میں پاتی جس کی جگمگاہٹ نگاہوں کو خیرہ کردیتی تو اس وقت اس کا دین کہاں ہوتا ؟

مسلمانوں نے کفو کے نام پر ذات و برادری کو نکاح کے لیے قید خانہ بنالیا ہے، برادری سے باہر نکاح کرنے کو معیوب اور عزت کے خلاف سمجھا جاتا ہے ، کفو کا مطلب مناسبت ہے تا کہ ازدواجی زندگی میں ناہمواری نہ ہو، زندگی سکون سے گذرے، ایک برادری میں بھی مالی حالت کی کمی اور زیادتی کی وجہ سے ناہمواری ہوسکتی ہے بلکہ ایک خاندان میں بھی ہوسکتی ہے، اس کا دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں ، شریعت کی نظر میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا کفو ہے اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حسب ونسب یعنی ذات و برادری کے مقابلہ میں دینداری کو نکاح کے لیے پسندیدہ معیار قرار دیا ہے۔

رسول پاک ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید سے کر دی تھی ، اس پر کفار نے بڑا شور مچایا کہ قریش کے اعلی خاندان کی لڑکی کا نکاح آزاد کردہ غلام سے کیسے کر دیا گیا،مگر حضورﷺ کی اس عملی مساوات نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ اصل معیار دینداری ہے ذات و برادری نہیں ۔ اسلام نے نکاح کو انتہائی سادہ اور آسان عمل بنایاتھا ، تا کہ لوگ گناہ کی طرف مائل نہ ہوں ، 

نبی ﷺ نے فرمایا: ان اعظم النكاح بركة ايسرة مؤنة. برکت کے لحاظ سے سب سے عظیم نکاح وہ ہے جس کا خرچ سب سے کم ہو۔

مگر آج کے مسلمانوں نے شادی بیاہ کے نام پر اتنی رسمیں ایجاد کر لی ہیں کہ نکاح کرنا ایک مشکل کام ہو گیا ہے، اس کی وجہ سے بداخلاقی اور بدکاری رونما ہونے گی ہے ۔ جہیز کی رسم اتنی عام ہوگئی ہے کہ جب تک لڑکی والے قیمتی سامان جہیز نہ جوڑ لیں لڑکیوں کی شادی نہیں ہوتی بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول پاک نے حضرت فاطمہ کو جہیز دیا تھا، یہ بات غلط ہے، رسول پاک نے اپنی کسی صاحب زادی کو جہیز نہیں دیا ، حضرت زینب، حضرت رقیہ حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ کسی کو جہیز نہیں دیا۔

حضرت فاطمہ کا جب حضرت علی سے نکاح ہوا تو حضور نے حضرت علی سے پوچھا ، تمہارے پاس مہر میں دینے کے لیے کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ میری زرو ہے، حضور نے ان کی زرہ حضرت عثمان غنی کے ہاتھ بیچ دی اور اسی کی رقم سے مہر کا اورگھریلو سامان کا انتظام کر دیا ، کیونکہ حضرت علی کے سرپرست بھی حضور ہی تھے، اگر حضور نے اپنی رقم سے ہی سامان دیا ہوتا تو ضرور جہیز سنت بن جاتی ۔

آج جہیز کی رسم کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں بغیر شادی کے بیٹھی ہوئی ہیں ۔ یہ مسلم معاشرہ کے لیے شرمندگی کی بات ہے ۔ جہیز کے ساتھ ہی بارات کی رسم مسلمانوں کے یہاں شادی کا جزو بن گئی ہے ۔ اکثر بارات کی جو تعداد طے کی جاتی ہے اس سے زیادہ باراتی پہو نچتے ہیں ۔ شریعت ، شرافت اور ضمیر تینوں کی عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ یہ کھانا درست نہیں ۔ بعض علاقہ میں نکاح سے پہلے منگنی کی رسم اور نکاح کے بعد چوتھی کی رسم ہوتی ہے ،اس میں بھی بارات ہی طرح بڑی تعداد میں لڑکی والوں کے گھر مہمان بن کر جاتے ہیں اور ان سے فرمائشی کھانا کھاتے ہیں ۔یہ ساری رسمیں درست نہیں ۔ اسلام نے لڑکی والوں پر کوئی خرچ عائد نہیں کیا ہے، جب کہ لڑ کے کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق نکاح کے بعد ولیمہ کرے، ہندوستانی سماج میں غیر مسلموں کے زیر اثر ہم مسلمانوں نے سنت کو بدعت میں تبدیل کر دیا ہے ۔ بعض علاقوں میں جہیز کے علاوہ لڑ کی والوں سے نقد رقم کا مطالبہ ہوتا ہے ۔ لڑکے کی مالی تعلیمی اور سماجی حیثیت کے مطابق رقم ادا کی جاتی ہے، ایسا کرنا صریح گناہ اور ظلم و زیادتی ہے بعض حضرات نقد رقم کا مطالبہ نہیں کرتے مگر امید کے مطابق لڑکی والوں سے رقم لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے مانگا نہیں خوشی سے دیا گیا ہے ، یاد رکھیے یہ وہی تاویل ہے جو یہودیوں نے مچھلی کے شکار کے لیے کی تھی ۔ شریعت کی نظر میں جو چیز معروف ہو جاۓ یعنی رواج پا جائے اس پر عمل کرنا ایسا ہی ہے جیسے شرط لگا دی گئی ہونقد رقم لڑکی والوں سے لینا خواہ مانگے یا بلا مانگے دونوں نا جائز ہیں ۔ 

اللہ تعالی ہمیں اپنے رسول کی سنت پر چلنے کی توفیق دے۔(آمین)

تبصرے

Reed more posts

نوجوان نسل کی بے راہ روی اور غیر ازدواجی تعلقات

جھوٹ معاشرہ کو تباہ و بربادکرتا ہے

جہیز کی لعنت کا خاتمہ ضروری ہے

: اول جیش من امتی

اولاد پر والدین کے حقوق اور ہمارے نوجوان

زنا: ایک سماجی ناسور

حلال روزی کما نافرض ہے

اسلام میں لَو یعنی پیار و محبت کرنا کیسا ہے..

طلاق کے علاوہ کن چیزوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

📘 دستورِ ہند؛ ایک معروضی مطالعہ 🇳🇪