تعلیم کی اہمیت

 تعلیم کی اہمیت


الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الكريم اما بعد قال الله تعالى في القرآن المجيد. اعوذ بالله من الشيطان الرجيم . "إقـرا بـاسـم ربك الذي خلق . خلق الإنسان من علق. إقرا وربك الأكرم . الذي علم بالقلم . علم الإنسان مالم يعلم (العلق: ۵-۱)


پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، مجھے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی ۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذرایہ سے علم سکھایا ، انسان کو و علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔


دنیا کے دوسرے تمام مذاہب کے مقابلہ میں دین اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے اپنی شروعات علم سے کی ہے، مذہب کی بنیادایمان وعمل ہے اور ایمان وعمل کی بنیاد علم ہے، چنانچہ سب سے پہلے جبرئیل امیں جووحی لے کر محمد ﷺ کے پاس تشریف لائے وہ سورہ العلق کی ابتدائی آیات تھیں ۔ اس وقت آپ ﷺ غارحرا میں ذکر وفکر میں مشغول تھے ، جبرئیل نے اللہ کا پیغام پہونچایا اور یہاں سے رسالت محمدی اور شریعت محمدی کا آغاز ہوا ،


ان چھوٹی چھوٹی پانچ آیات میں براہ راست تعلیم پر زور دیا گیا ہے ، تین مرتبہ علم کا دومرتبہ پڑھنے کا اور ایک مرتبہ لکھنے کا تذکرہ کیا گیا ہے، قرآن کریم میں علم کی اہمیت پر دوسرے مقامات میں بھی زور دیا گیا ہے، تعلیم ایسے وقت اور ایسے سماج میں دی گئی تھی جب لوگ جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے، جن کے پاس علم تھا وہ بھی اس کی شمع بجھا کر اندھیرے میں اپنا وجود کھو چکے تھے، اللہ تبارک و تعالی نے محمد ﷺ کو آخری رسول بنایا اور مسلمانوں کو آخری امت بنایا۔ اس امت کو دنیا میں باقی رہنے اور ترقی کرنے کے لیے دو بنیادی نظریے عطا کیے، ایک علم اور دوسرا ایمان ۔ یہی دونوں چیزیں امت مسلمہ کی نظریاتی بنیادفراہم کرتی ہیں ، اور انہیں بنیادوں پرامت ترقی کر سکتی ہے، یہ دونوں چیزیں در اصل دو روشنی ہے،ایک اندر کی روشنی اور ایک باہر کی روشنی ، ایمان اندر کی روشنی ہے اور علم باہر کی روشنی ، اگر یہ دونوں موجود ہوں تو امت اپنی ترقی کی راہ آسانی سے دیکھ سکتی ہے ۔ اور اگر ان میں سے کوئی ایک غائب ہو جاۓ تو راستہ نظر نہ آئے گا منزل تک امت پہوچ نہ پائے گی اور وہ ذلت وپستی کا شکار ہو جاۓ گی ، اسی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی نے ارشادفر مایا ہے، يرفع الله الذين امنوا منكم والذين أوتوالعلم درجٰت والله بما تعملون خبير (المجادله. ا ا ) جولوگ تم میں سے ایمان لائے اور جو لوگ اہل علم ہیں اللہ ان کے مرتبے بلند کرتا ہے اور جو کچھ تم کرر ہے ہواللہ اس سے باخبر ہے۔ اللہ نے ترقی کا یہ عالمی اصول مسلمانوں کو دیا تھا اور جب تک مسلمان علم و ایمان کے مشعل بردار رہے دنیا کی امامت کے حق دار رہے اور جب ان کے ہاتھ سے یہ روشنی گئی ذلت وخواری سامنے آ گئی ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنےکوفرض قرار دیا،

ارشاد فرمایا : طلب العلم فريضة على كل مسلم -

علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردوعورت پر فرض ہے۔ اقوام متحدہ نے علم حاصل کرنے کو انسان کا حق قرار دیا ہے مگر اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے، حق اورفرض میں فرق یہ ہے کہ حق چھوڑا جاسکتا ہے ، مگر فرض چھوڑا نہیں جاسکتا ، اگر کوئی اپنا حق نہ لے تو اس پر زور زبردستی نہیں ، مگر کوئی اپنا فرض انجام نہ دے تو اس سے باز پرس ہوگی اور سزادی جاۓ گی، چنانچہ علم حاصل نہ کرنا اور اپنے بچوں کوتعلیم سے محروم کرنا ایسا گناہ ہے جس پر مواخذہ ہوگا اور سزادی جاۓ۔ رسول پاک ﷺ نے اس فرض کو ادا کرنے والوں کو یعنی تعلیم حاصل کرنے والوں کو اللہ کا مہمان اور اللہ کا مسافر کہا ہے جو براہ راست اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے اور دنیا کی ہر شے ان کے لیے رحمت کی دعائیں کرتی ہیں ، چنانچہ حضرت ابو درداء روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا ’’جو علم حاصل کرنے کے لیے راہ طے کرتا ہے اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے ، فرشتے طالب علم کے لیے پر بچھا دیتے ہیں ، عالم کے لیے آسمان وزمین کی ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے ۔ یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں بھی ، عالم کی فضیلت عبادت گذار پر اتی ہے جیسے چاند کی فضیلت دوسرے ستاروں پر علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں ، بے شک انبیاء دینار و درہم کی وراثت نہیں چھوڑ تے بلکہ وہ علم کا وارث بناتے ہیں۔ جس نے علم حاصل کیا اس نے پورا حصہ حاصل کر لیا‘‘۔۔ علم کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اپنی ذات کی پہچان ہو جائے ، اپنے معاشرہ اور کائنات کی پہچان ہو جائے اور اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی اور اس کے احکام کی پہچان ہو جاۓ ، اس علم کے دو ذریعے ہیں ایک تو اللہ تعالی کی وحی جو انبیا علیہم السلام کے ذریعہ انسانوں کی پاس آتی ہے اور دوسرا انسان کا اپنا مشاہدہ اور تجر بہ جس کے لیےاللہ نے عقل و حواس انسان کو عطا کیے ہیں ۔ یہ دونوں ذرائع ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے علم کو وسیع اور اتھاہ سمندر بنایا ہے، جو شخص جتنا بھی علم حاصل کرے وہ کم ہے ، اسلام نے علم کو دین و دنیا کے دو خانوں میں تقسیم نہیں کیا ہے، یہ تقسیم بعد کے زمانہ میں ضرورتوں کے لحاظ سے کی گئی ہے، ہر وہ علم جو انسان کو اللہ کی کائنات اور اپنی ذات کی معرفت عطا کر دے دین کا علم ہے اور ہر وہ علم جو اسے اس معرفت سے دور کر دے وہ لا دینی علم کہلاۓ گا۔ 

دنیا اور آخرت دونوں مومن کے لیے ہے، اس لیے دونوں کی معرفت مومن کے علم کا مقصد ہے،اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ہمیں یہ دعا سکھائی ہے: ربنا اتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النّار (البقرہ-۲۰۱) اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں عذاب جہنم سے بچا۔ یہ دعا بہت جامع ہے، اس میں دونوں جہان کی سعادت شامل ہے، اس دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس وقت ہمارے ملک میں علم کے دو دھارے ہیں ایک دینی علم کا اور دوسراعصری علم کا علم دین کے حامل عصری علم سے واقفیت نہیں رکھتے اور عصری علم کے حاملین دینی علم سے واقفیت نہیں رکھتے ، یہ مسلمانوں کے لیے نہ مناسب ہے اور نہ اسلام کے مزاج کے مطابق ہے ، اللہ اور اس کے رسول کے عطا کردہ علم کو چھوڑ دینا بڑی بدنصیبی ہے ، اور عصری علم کی ضرورت کو نظر انداز کر دینا پست ذہن کی علامت ہے۔ جنگ بدر میں جو کفار مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ان کے بارے میں صحابہ کرام کے مشورہ سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طے فرمایا کہ ان کو تاوان اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا جاۓ ،مگر جو قیدی لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان سے کہا گیا کہ ہر قیدی دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے تو اسے بغیر فدیہ کے چھوڑ دیا جائے گا ، غور کرنے کی بات ہے کہ رسول پاک نے کافروں کو مسلمان بچوں کا معلم بنایا اور ان سے وہ تعلیم دلوائی جوان کے پاس تھی ، یہ سنت مسلمانوں کو بتاتی ہے کہ غیر مسلموں کے پاس جو علم ہے اسے بھی حاصل کرنا ہمارے دین کا تقاضا ہے، کیونکہ علم مومن کی میراث ہے ، اس کا ہتھیار اور اس کا زیور ہے ، یہی مطلب ہے رسول اللہ کی اس حدیث کا ، جس کی روایت حضرت ابو ہریرہ نے کی ہے۔: كلمة الحكمة ضالة المومن فحيث وجد ها فهواحق بها !

دانائی کی بات مؤمن کا گم شدہ سامان ہے، دو جہاں اسے پائے اس کو حاصل کر نے کا وہ زیادہ حق دار ہے۔ رسول پاک ﷺ کی اس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہمارے اسلاف نے یونان ، روم اور ہند کے براہمنوں کے علم کو حاصل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اوران علوم کواتنی ترقی دی کہ وہ ان علوم کے امام بن گئے ، بہت سے علوم خودانہوں نے ایجاد کر ڈالے ، اور دنیا کی ترقی کا ذریعہ بنے ، طب یونانی کو مسلمانوں نے ترقی دی ، حساب، الجبرا، جغرافیہ کو مسلمانوں نے ترقی دی، علم تاریخ اور سماجیات کے اصول مسلمانوں نے مرتب کیے ، ہیئت اور فلکیات کو مسلمانوں نے ترقی دی ، جراحی و سرجری اور قوردیہ علم چشم ) مسلمانوں نے ایجاد کیے، اور یہ وہ مسلمان تھے جو قرآن و سنت کا بھی پورا علم رکھتے تھے ۔ اس وقت پر ضرورت ہے کہ مسلمان تعلیم حاصل کرنے کو اپنی پہلی ترجیح بنالیں اور اپنا کھویا ہواو قار دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں علم کے ذریعہ ان کو دولت ،عزت ،روشنی ، وقار اور ترقی حاصل ہوگی ۔قدرت کے قانون میں روشنی اور تاریکی برابرنہیں ہوسکتی علم اور جہالت برابر نہیں ہوسکتی ، اسی طرح علم والےاور جاہل برابر نہیں ہو سکتے علم دنیا وآخرت کی سعادت عطا کرتا ہے اور جہالت ان ساری چیزوں سے انسان کو محروم کر دیتی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: قل هل يستوى الذين يعلمون والذين لا يعلمون إنّما يتذكر أولوا الألباب (الزمر – 9) آپ کہد پیجیے کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور وہ لوگ جو نہیں جانتے برابر ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو عقل مند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔ علم اور جہالت کا یہ فرق دنیا میں ہمیشہ باقی رہے گا ، اہل علم ترقی کریں گے اور جاہل پستی کی طرف جائیں گے۔ یہ پستی سماجی ملکی ہر طرح کی ہو سکتی ہے، حضرت مصعب بن زبیر نے اپنے صاحب زادے کونصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: بیٹے علم حاصل کرو اگر تمہارے پاس مال ہے تو علم تمہارا جمال ہے، اور اگر تمہارے پاس مال نہیں ہے تو علم تمہارامال ہے 

اپنے بچے بچیوں کو اچھی تعلیم دینا ماں باپ کی ذمہ داری ہے اور اس کے ساتھ بہترین تحفہ بھی ہے۔ رسول پاک ﷺ نے ارشادفرمایا: ﷺ "ما نحل والد ولدا من افضل ادب“۔

( کوئی والدا پنی اولا دکوعمدہ تعلیم سے بہتر تحفہ نہیں دیتا۔ ) اللہ تعالی مسلمانوں کو علم و ایمان کے نور سے منور کر دے اور ان کو تو فیق دے کہ وہ اپنے بچوں کو علم سے آراستہ کر میں ۔(آمین)

منجانب : آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 

تبصرے

Reed more posts

نوجوان نسل کی بے راہ روی اور غیر ازدواجی تعلقات

جھوٹ معاشرہ کو تباہ و بربادکرتا ہے

جہیز کی لعنت کا خاتمہ ضروری ہے

: اول جیش من امتی

اولاد پر والدین کے حقوق اور ہمارے نوجوان

زنا: ایک سماجی ناسور

حلال روزی کما نافرض ہے

اسلام میں لَو یعنی پیار و محبت کرنا کیسا ہے..

طلاق کے علاوہ کن چیزوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

📘 دستورِ ہند؛ ایک معروضی مطالعہ 🇳🇪